کالم

حالات کنٹرول سے باہرہوسکتے ہیں

شہباز شریف حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ملک کے بڑے شہروں قصبوں اور دیہات میں عوام بجلی کے بل ہاتھوں میں لئے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ نگران حکومت بین الاقوامی فنڈ سے کئے ہوئے معاہدے سے پھر نہیں سکتی کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑا تو اس کا خمیازہ اتحادی حکومت اور پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کےلئے حکومت کو قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہیے کہ نگران صرف الیکشن کروانے کے لئے 90 روز کے لئے آئے ہیں۔ پھر بھی وزیراعظم نے عوام کو مناسب ریلیف دینے کی یقین دہانی کرائی ہیے۔ انہوں نے مالیاتی فنڈ کے حکام کو بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے ملک گیر ہنگاموں مظاہروں سے آئی ایم ایف حکام کو آگاہ کیا۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ عوام کو ریلیف دینا ہماری مجبوری ہیے۔ فنڈ حکام نے بجلی کے بلوں میں سبسڈی اور ٹیکس کم کرنے کی صورت میں ان شعبوں کی نشان دہی کے یے کہا ہیے جن سے ریونیو اکٹھا کرکے سالانہ ٹارگٹس پورے کیے جا سکیں۔ مالیاتی فنڈ نے تحریری طور پر آگاہ کرنے کے لئے کہا ہیے۔ ایف بی آر حکام نے حکومت کو یقین دلایا ہیے کہ سالانہ ٹیکس ٹارگٹس آسانی سے حاصل کر لءےجائیں گے۔ امید کی جا رہی ہیے کہ مالیاتی فنڈ کی انتظامیہ کسی درمیانی راستے پر راضی ہو جائے گی۔ لیکن حکومت ابھی زبانی جمع خرچ ہی کر رہی ہیے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہیے۔ ابھی بجلی کے بلوں کے بارے میں عوام سڑکوں پر تھے کہ حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گرا دیا اور پٹرول 306 روپے لیٹر ہو گیا ہے کوئٹہ میں پٹرول پمپس ویران نظر آ رہے ہیں اور عوام سستا ایرنی پٹرول خرید رہیے ہیں۔ اب سرکاری ملازم ہوں پرائیویٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ورکرز یا دیہاڑی دار مزدور کی تنخواہوں میں تو روزانہ کی بنیاد پر اضافہ نہیں ہوتا لیکن بجلی کی قیمتیں ہر ماہ تبدیل ہوتی ہیں اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز بعد ردوبدل کیا جاتا ہیے عوام جائیں تو کدھر جائیں۔ اس وقت ملک کو شدید قسم کے سیاسی اور معاشی بحران کا سامنا ہیے۔ مخصوص قسم کے تاجر مافیہ کی وجہ سے چینی جو کہ ہر آدمی کی روزانہ کی ضرورت ہیے اسے پاکستن بھر کے تاجروں اور شوگر مالکان نے وسیع پیمانے پر بڑے بڑے گوداموں میں چھپا رکھا ہیے۔ مبینہ طور پر مقامی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی ملی بھگت سے قیمتوں میں اضافے کے لئے چینی کا زخیرہ کیا ہوا ہیے۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ایسا لگ رہا ہیے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اے سی اور ڈپٹی کمشنز بھی چینی مافیہ کے سامنے بے بس نظر آ رہیے ہیں۔ حکومت کے پاس ایف آئی اے رینجرز کسٹمز اور دیگر فورسز بھی موجود ہیں ان کو حرکت میں لا کر چینی کے بڑے بڑے گوداموں پر چھاپے مار کر چینی برآمد کی جا سکتی ہیے تاکہ مصنوعی قلت ختم ہو اور قیمتوں میں استحکام آئے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہیے کہ پوری حکومتی مشینری چینی کے مل مالکان جن کا تعلق کئی سیاسی جماعتوں سے ہے بے بس نظر آرہی رہی ہے۔ پاکستان کسٹمز کی ٹیم نے کے پی کے بلوچستان بارڈر پر چھاپہ مارکر چینی کے پندرہ ٹرک پکڑے ہیں کسٹمز کی یہ کاروائی قابل ستائش ہیے۔ ڈالر کی قیمتوں کو ھی پر لگ گئے ہیں اور اب ڈالر تین سو سے اوپر چلا گیا ہیے اس کی بڑی وجہ منافع بخش بزنس کے طور پر ڈالرز کی مقامی سطع پر زخیرہ اندوزی اور افغانستان کی جانب سمگلنگ ہیے ڈالر کی قیمتوں کو نیچے لانے کے لئے ڈالر کی سمگلنگ روکنا ضروری ہیے۔ بجلی بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ رک نہیں رہا۔ اب پنجاب بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی اس میں شامل ہو گئی ہیں مختلف شہروں میں تاجروں اور وکلا کا احتجاج جاری ہیے وکلا نے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق آئی یم ایف بیل آﺅٹ کے باوجود افراط زر سال بہ سال 24.7 فیصد رہا اور قیمتوں میں ہر ماہ 1.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہنگاموں کی شدت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے بلوں میں ریلیف دینے میں جتنی دیر ہوگی اتنا ہی پہلے سے تباہ حال معیشت کا نقصان ہو گا حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ٹیکسز,سرچارجز ,فیول ایڈجسٹمنٹ اور کیپیسٹی پیمنٹ کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی قابل قبول حل نکالنا ہوگا۔ رعائتی یونٹس کی حد بھی بڑھائی جا سکتی ہیے ۔ ورنہ ہڑتالوں ریلیوں شٹر ڈائن کی شدت بڑھتی جائے گی اور حالات کنٹرول سے باہر بھی ہو سکتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے