ڈاکٹر حنا جمشید اردو زبان و ادب کی استاد ہیں۔ان کی منصبی ذمہ داریوں میں نژادنو کی ادبی و لسانی تعلیم و تربیت کلیدی مقام رکھتی ہے۔ یقینی طور پر وہ اپنی یہ ذمہ داریاں بطریق احسن نبھاتی ہوں گی، وہ بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اردو کے روشن فکر اساتذہ کی لائق اسکالر بھی ہیں۔تدریس ان کی مصروفیت ہے تو تصنیف و تالیف اور تنقید و تحقیق ان کا شوق۔ وہ اپنے اس ذوق و شوق کو کتابی صورت میں پیش کرتی رہتی ہیں۔ ساہیوال جیسے تہذیبی شہر کے وقار کو فراواں کرتی ہوئی یہ بے چین مصنفہ اپنی چھ عدد وقیع کتابوں سے پاکستان کے جہان فراست کو اپنے علم اور اپنی دانش کے پیہم مظاہر سے متاثر کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ جس رفتار سے وہ اپنے علمی آثار سامنے لا رہی ہیں، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑی ہو کر،بہت بڑی دانشور خاتون بن جائیں گی۔ڈاکٹر حنا جمشید کی تصنیفی مہمات کا دائرہ تحقیق و تنقید اور تدوین و تسہیل سے لے کر ناول نگاری تک تو ٹھیک تھا،پر اب جو انہوں نے یہ سوچے بغیر کہ پاکستان کا قومی کھیل،ہاکی نہیں،بلکہ تاریخ ہے، اور یہ کھیل صرف سرکاری طور پر تربیت یافتہ کھلاڑی ہی کھیل سکتے ہیں، اسی تاریخ کی خالص صورت کو اردو ادب کے شفاف آئینے میں دیکھنے کی سعی شروع کر رکھی ہے۔ چونکہ میں ڈاکٹر حنا جمشید کا خیر خواہ ہوں، اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان میں تاریخ کی بند گٹھڑی کو کھولنے سے گریز کریں۔اساطیری کہانیوں میں عموماً کوئی صاحب کرامت بزرگ کسی شہزادے یا شہزادی کو سمجھا دیا کرتا تھا کہ؛ جب بھی اپنی مہم کے دوران اس کا کسی جادوگر یا عفریت سے آمنا سامنا ہو جائے، تو وہ اسے براہ راست دیکھنے کی بجائے،بزرگ کے دیئے آئینے میں دیکھیے اور اس کے شر سے محفوظ رہے۔ڈاکٹر حنا جمشید نے بھی شاید اسی لیے ازراہ احتیاط پاکستانی تاریخ کو اردو ادب کے شفاف آئینے میں دیکھتے ہوئے تاریخ کے مستور پہلو¶ں کو ‘کھلی تاریخ ‘ کی صورت پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ایسا کر کے وہ،امکان ہے کہ جادوگر اور عفریت کے شر سے بھی محفوظ رہیں گی۔ہاں البتہ ایک قاری کے طور پر میں انہیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ؛ تاریخ کے بند پنجرے کا دروازہ کھولنے کے نتیجے میں حقائق کے آزاد منش پرندے کھلی فضا¶ں اور تازہ ہوا¶ں میں اڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ان لوگوں کے مزید ناراض ہو جانے کا مکان ہوتا ہے، جو پہلے ہی آسمان سے شکوہ سنج اور خفا رہتے ہیں۔ ڈاکٹر حنا جمشید اپنی اس کاوش کو ” اُردو ادب کے شفاف اور بے داغ آئینے میں تاریخ کو اس کی اصل صورت کے ساتھ پیش کرتی کھلی تاریخ” قرار دیتی ہیں۔ایسا کرتے ہوئے مصنفہ کو علم ہونا چاہیئے کہ تاریخ کی مشاطگی کا حق صرف ریاست اور اس پر تصرف رکھنے والوں کو ہوتا ہے،اس کے شہریوں کو نہیں۔پھر یہ تو اور بھی معیوب بات ہے کہ تاریخ کے نقاب کو بیچ چوراہے الٹنے کی کوشش کی جائے۔یاد رہنا چاہیئے کہ ہمارے جیسے مستور معاشروں میں ایک پردہ ہی تو ہے جو عورتوں کے چہرے، مردوں کی عقل اور تاریخ کی اصلیت کو ڈھانپنے کے کام آتا ہے۔ کچھ یہی وجہ ہے کہ؛ جو کوئی بھی ہمارے نقاب کو ہٹائے، اٹھائے یا نوچنے کی کوشش کرے،ہمیں وہ دشمن اور کافر نظر آنے لگتا ہے،اور ہم اسے معاف نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں جس طرح نئی نسل کو پڑھانے کے لیے مختلف درجات کے نصابات تیار کیے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح ملک کی سیاسی،سماجی معاشی، مسلکی،حربی اور ضربی ضروریات کی کفالت کرنے والی تاریخ بھی وضع کر لی جاتی ہے۔ ستم ظریف کی پختہ رائے تو یہ ہے کہ اردو کا بہترین فکشن مختلف درجات کے لیے تیار کردہ تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ وہ اس ”فکشن” میں تخیئل کی بلند پروازی کو دنیا بھر کے ادب کے مقابلے میں ارفع ترین قرار دیتا ہے۔ میں ہمیشہ اس کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اسے ایسے لوگوں سے ہمیشہ فاصلے پر رہنا چاہیئے،جو اسے تاریخ بتانے یا پڑھانے کا ارادہ رکھتے ہوں، میں اسے بتاتا ہوں کہ اسے نصیحت کرنے والوں، مشورے دینے والوں اور خوابوں کی تعبیر بتانے یا ہاتھ کی لکیریں پڑھ کر قسمت کا حال بتانے والوں سے بھی دور رہنا چاہیئے۔میں اسے یہ بھی سمجھاتا ہوں کہ اسے اپنے ذہن پر زور دے کر اور کافی کوشش کر کے عقل مندی کی باتیں کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔میں اسے کہتا ہوں کہ وہ اگر ان باتوں پر عمل کرے گا تو زندگی بھر سکھی اور پرسکون رہے گا۔ ستم ظریف تھوڑا سا بے لحاظ آدمی بھی ہے،میری باتیں توجہ سے سننے کے بعد آہستہ سے کہنے لگا کہ اس طرح تو مجھے آپ سے بھی فاصلے پر رہنا ہو گا۔ڈاکٹر حنا جمشید کی تازہ تالیف ‘ کھلی تاریخ’ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کی کتابی صورت ہے۔چھ میں سے پہلا باب ادق علمی اصطلاحات سے مزین اور ان کی تعبیر سے آراستہ ہے۔بقیہ ابواب میں ادب سے جھلکتے ہمارے ماضی کو سمجھنے کی اس کاوش کی وجہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر حنا جمشید کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ؛ ”تاریخ میرے لیے ہمیشہ ایک ایسے دلچسپ ویرانے کی صورت رہی جہاں وقت کے معدوم نشانات کی بازیافت قصوں، باتوں اور یادوں کے تذکرے سے ممکن تھی لیکن گزرے زمانے کے واقعات کا استناد میرے لیے ہمیشہ ایک ایسا اُلجھا سوال رہا، جس کی تلاش و جستجو نے مجھے تاریخ کی کئی غلام گردشوں میں جھانکنے کا موقع دیا۔ سچ پوچھیے تو ہم میں سے بیشتر لوگوں کے لیے تاریخ فقط ایک گزرا زمانہ یا اس گزرے زمانے کے واقعات کا رسمی بیان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان رسمی بیانات تلے دبی ہماری تشنہ تاریخ ایک سوچنے والے ذہن کےلئے ہمیشہ باعث آزار رہی ہے۔” تاریخ کو ایک دلچسپ ویرانے کی بجائے اگر ایک شاد و آباد افسانہ قیاس کر کے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو قوی امکان ہے کہ یہ افسانہ اپنے معنی کے سربستہ رازوں میں آپ کو شریک کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ اگر تو تاریخ محض واقعات کا عنوان ہے،تب تو ان واقعات کی سند بنیادی اہمیت اور اساسی حیثیت رکھتی ہے۔،لیکن اگر تاریخ کے معنی میں اس سے حاصل بصیرت، اس بصیرت کے اخذ و قبول کی وجوہ اور پھر ان کے اثرات کو علمی تحقیق کا موضوع بنایا جائے تو پھر تاریخ کی بند کتاب کھلنا شروع ہو سکتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ انسان سب سے مستند علم اپنے حال کا رکھتا ہے یا اسے رکھنا چاہیئے، پر کیا کریں، یہ بھی درست سے کہ انسان بعض صورتوں میں اپنے حال سے نظر چرا کر اپنے ماضی کے برگد پر گھونسلہ بن کر رہنا چاہتا ہے۔ ماضی پرستی دو طرح کے نقصان کا باعث بنتی ہے،ایک یہ کہ آپ کی چشم فراست یا تیسری آنکھ کو پیشانی سے اٹھا کر کھوپڑی کی پشت پر ٹکا دیتی ہے،اور آپ ان مناظر اور مظاہر کو تلاش کرتے رہتے ہیں،جو دوبارہ ظہور میں آنے والے نہیں ہوتے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مستعار و مفروضہ تاریخ نویسوں نے یہ واہمہ بھی عام کر رکھا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔دوسرا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ آپ زمانہ حال کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لا کر اپنے مستقبل کی صورت گری کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ڈاکٹر حنا جمشید کو اس بات کا ادراک ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ تاریخ اور امر واقعہ کے فرق و امتیاز سے واقف و آگاہ ہیں۔اسی آگہی کی بنیاد پر وہ اپنے قاری کو ‘کھلی تاریخ’ کے تصنیفی منصوبے کے بنیادی مقصد سے آگاہ کرتی ہوئے بتاتی ہیں کہ؛ ”اس کتاب کو لکھنے کی واحد وجہ اس تاریخ پاکستان کی تفہیم تھی جو اپنے مخمصوں کے باعث ابتدا ہی سے کئی طرح کا ابہام اور پیچیدگیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مابعد جدیدیت کے زیر اثر نو تاریخیت کے تنقیدی رجحان کے معاونتی مطالعے نے میرے لیے اس تفہیم کو مزید دلچسپ بنادیا۔ ادب، ثقافت اور تاریخ کی اس باہمی آمیزش کے سبب پاکستان کی یہ مختصر مگر جامع تاریخ اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہے کہ اس میں ہمارے تخلیقی ضمیر کا وہ رنگ شامل ہے، جو پاکستان کے منتخب ادباءکے تخلیقی متون میں کہیں پوشیدہ تو کہیں عیاں، تاریخی بیانیوں کی تفہیم میں ہمیں ماضی کے اس عہد سے روشناس کراتا ہے، جس کی پر پیچ راہ گزر سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ تاریخ میں ڈوبنے اور اُبھرنے کا یہ ایسا دلگداز مرحلہ تھا، جس نے مجھے کئی کئی دن تک ماضی کو ادبی و تاریخی متون کے جھروکوں سے کہیں حیرت تو کہیں غم سے دیکھنے پر مجبور کیا۔ ماضی کے شش جہات میں پھیلا¶ کے سبب اس موضوع کی وسعت کو دریا کی طرح کوزے میں بند کر دینا میرے لیے سب سے دُشوار امر تھا۔” ڈاکثر حنا جمشید پاکستانی تاریخ کو اردو کے منتخب ادبی متون کے حوالے سے ایک ‘کھلی تاریخ’ میں تبدیل کرنے میں کس حد کامیاب ہوئی ہیں ، یہ تو آپ کتاب پڑھ کر خود ہی جان لیں گے۔لیکن کتاب کے معنی کو محمد شکیل طلعت کے تیار کردہ سرورق کے علامتی اظہار نے ایسی وسعت دے دی ہے کہ پاکستان کی کھلی تاریخ کا حال و مآل سامنے کھلا پڑا نظر آرہا ہے۔کتاب کے سرورق کے اوپر قاید اعظم کی تصویر کو مرکز بنا کر دائیں جانب چار وزرائے اعظم کی تصاویر ہیں،جبکہ بائیں جانب پاکستانی تاریخ کے چار بدترین ڈکٹیٹرز نظر آ رہے ہیں۔یہ ہماری تاریخ ہے۔اسی سرورق کے نیچے سعادت حسن منٹو کی تصویر کے مرکز کے دائیں جانب پاکستان کے چار نامور شعراءجبکہ بائیں جانب چار فکشن نگاروں کی تصاویر دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کی تعبیر خیال کی جا سکتی ہے۔ درمیان میں پاکستانی تاریخ کے المناک واقعے ہجرت کے دو عکس پس منظر ترتیب دینے میں مصروف ہیں ۔ تصویروں کی اس معنی خیز ترتیب کے وسط میں جلی حروف میں کتاب کا عنوان درج ہے؛ یعنی ‘ کھلی تاریخ ‘ ادب سے جھلکتا ہمارا ماضی۔یہ بامعنی سرورق اس کھلی تاریخ کے مندرجات کا اشاریہ بھی ہے۔