وفاقی حکومت نے عوام پر مہنگائی کاایک اوربم گرادیا ہے جس سے پہلے سے موجود مہنگائی کا گراف کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گا ۔معاشرے میںچوری، ڈکیتی ، راہزنی کی شرح میں ا ضافہ ہوگا اور خودکشیوں کاتناسب بھی بڑھ جائے گاکیونکہ ایک عام آدمی کی قوت تقریباً ختم ہوکررہ گئی ہے ۔اس مہنگائی کے دور میں بچو ں کے لئے دووقت کی روٹی مہیا کرناایک عام آدمی کےلئے سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کے ہاتھوں مجبورہوکرمعاشرے میں جرائم کے تناسب میں ہوشرباءاضافے کا امکان ہے جس کی تمام تر ذمہ دارموجودہ حکومت ہوگی ۔ہم بارہامرتبہ ان سطورمیں ارباب حکومت سے یہ استدعاکرچکے ہیں کہ اگرمہنگائی پرکنٹرول کرناہے تو باربارعوام کو قربانی کابکرا نہ بنائے بلکہ اپنے اخراجات پرکنٹرول کرے ۔جب عوام اورارباب اختیار یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اس وقت ہم تاریخ کے نازک ترین معاشی دورسے گزررہے ہیں تو وہ اپنی عیاشیوں اپنے اللوں تللوں اوراپنی آسائشات پراٹھنے والے اخراجات پرکٹ لگانے کے لئے کیوں تیار نہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی عوام کو سڑکوں پرآنے پرمجبورکرسکتی ہے اس کاسہرابھی حکومت کے سرہوگا۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں فنانس بل 2023 پیش کردیا، جس کے مطابق لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کرکے 25 فیصد تک کردیا گیا ہے۔مالی ضمنی بل 2023 قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے موقع پر وزیراعظم ایوان میں شریک نہیں ہوئے۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ مجوزہ حکومت کو آئے ہوئے چند ماہ گزرے تھے، اس دوران معیشت کو سنبھالا ہی دیا جا رہا تھا کہ سیلاب آ گیا۔ سیلاب کی وجہ سے 8ہزار ارب سے زیادہ نقصان ہوا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا، وہ ضرور پڑھیں۔ یہ صرف ایک حکومت کا نہیں، ریاست کا معاہدہ تھا ۔ عمران خان نے اپنے معاہدے سے انحراف کیا۔ عدم اعتماد کی وجہ سے انہوں نے معاہدے کے برعکس فیصلے کیے۔ اس وجہ سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔فنانس بل پیش کرتے ہوئے خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا نواں مشن آیا اور 10 دن تک ہمارے مذاکرات ہوئے۔ہم نے مختلف معاملات پر عملدرآمد کا عندیہ دیا۔ جب ہماری حکومت آئی تو ملک پر 34 ہزار ارب کے قرضوں کا بوجھ پڑ چکا تھا۔ ہماری سال 2013 کی حکومت میں مہنگائی 2 فیصد تک تھی۔ پاکستان 6 فیصد کے حساب سے ترقی کررہا تھا۔ ایک تبدیلی 2018 میں لائی گئی، جس نے پاکستان کو دنیا کی 20 ویں سے 47ویں نمبر پر پہنچا دیا۔نیزحکومت نے عوام پر پٹرول بم گرا دیا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 22 روپے 20 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17روپے 20 پیسے اور لائٹ سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 9روپے 68پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے مٹی کے تیل کی قیمت میں 12 روپے 90 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے دوران پٹرول کی قیمت میں کب اور کتنا اضافہ ہوا؟پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 272 روپے ہو گئی ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل 280 اور لائٹ سپیڈ ڈیزل 196 روپے 68 پیسے کا ہو گیا ہے، مٹی کے تیل کی نئی قیمت 202 روپے 73 پیسے ہو گئی ہے۔نیز اسلام آبادآئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے گیس کی قیمت میں 112 فیصد تک اضافہ کر دیا۔اوگرا کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گھریلو صارفین کو پروٹیکٹیڈ اور نان پرو ٹیکٹڈ کیٹیگریز میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 22 روپے سے زائد کا اضافہاعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پروٹیکٹڈ کیٹیگریز کے 4سلیبسز بنا دیے گئے ہیں، پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں ماہانہ 25 مکعب میٹر کے صارفین شامل ہیں جبکہ 50مکعب میٹر، 60 مکعب میٹر اور 90 مکعب میٹر ماہانہ کے صارفین بھی پروٹیکٹڈ کیٹیگری شامل ہیں۔اوگرا اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گیس گی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گا۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں بھی 22 روپے سے زائد کا اضافہ کیا ہے جبکہ ایل پی جی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ادھرگردشی قرض ختم کرنے کیلئے آئی ایم ایف نے نئی شرط عائد کر دی ۔دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف نے کے الیکٹرک سے 662 ارب روپے کے واجبات وصولی کی شرط عائد کر دی جس میں سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان میں شامل ہے ،آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت رواں مالی سال میں کے الیکٹرک سے واجبات وصول کرے ، وزارت خزانہ اور پاور ڈو یژن کو 30 جون 2023 پر شرط پر عملدرآمد کرنا ہو گا ۔کے الیکٹرک 2018 سے قومی گرڈ سے بجلی خریداری کی رقم ادا نہیں کی۔کے الیکٹرک کو قومی گرڈ سے بجلی فراہمی کا معاہدہ 2015 میں ختم ہو گیا تھا ،آئی ایم ایف کا کے الیکٹرک کو بغیر معاہدہ اور ادائیگی کے بجلی فراہمی پر تحفظات ہیں جون 2022 تک کے الیکٹرک کے 490 ارب روپے کے واجبات ہیں ۔ دستاویزات کے مطابقرواں مالی سال کےالیکٹرک کے بجلی واجبات میں 172 ارب روپے کا اضافہ ہو گا ،وزارت خزانہ اور پاور ڈویژن کو کے الیکٹرک کے ساتھ نیا بجلی فروخت کا معاہدہ 30 جون 2023 تک کرنے کی شرط ہے۔دوسری جانب موڈیزاقتصادی ماہرین کاکہناہے کہ پاکستانی معیشت کی بحالی کےلئے صرف آئی ایم ایف کا بیل آﺅٹ پیکج ہرگز کافی نہیں ہو گا، معیشت کو ٹریک پر لانے کےلئے مسلسل اور مضبوط معاشی طریقہ کار کی ضرورت ہے، آئندہ بھی سخت ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، مالی سال 2024میں بھی مالیاتی و معاشی بحران اسی طرح جاری رہنے کا امکان ہے۔ بلند ترین افراط زر کی وجہ سے کم آمدنی والے لوگ اور خاندان سخت مشکلات سے دوچار ہوں گے، اس وقت بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں مگر کم آمدنی والے گھرانے انہیں خریدنے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں، انتہائی مہنگی خوراک لینے پہ مجبور ہیں، جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس میں سالانہ 27.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو موجودہ نصف صدی میں بلند ترین سطح پر ہے۔ بہتری فورا ہرگز نہیں آسکتی ہے ملکی کرنسی کمزور ہے جس کی وجہ سے درآمدی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی عروج پر ہی رہنے کا امکان ہے۔
امریکہ کا پاک بحریہ کے ساتھ تعاون بڑھانے کاعزم
امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے دورہ کراچی میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل امجد نیازی سے ملاقات کی، انہوں نے بحیرہ عرب میں ہونےوالی ’امن 2023‘ بحری مشقوں کا جائزہ بھی لیا۔بحری مشقوں میں امریکی سفیر کی شرکت کا مقصد خطے میں امن و استحکام کیلئے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون سمیت مشترکہ سوچ کو فروغ دینا ہے۔دورہ کراچی کے موقع پر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی وزیراعلیٰ سندھ، کمانڈر پاکستان فلیٹ (COMPAK) اور چیف آف نیول اسٹاف سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔اس موقع پر سفیر ڈونلڈ بلوم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امن 2023 میں بحری افواج کی مشقوں کا مشاہدہ کرکے بےحد خوشی ہوئی، اس اقدام سے پرامن، مستحکم اور خوشحال پاکستان کیلئے جاری کاوشوں کو تقویت ملی ہے۔ امریکا سمندری حدود کی سیکیورٹی کو مزید مستحکم بنانے کیلئے پاک بحریہ کے ساتھ تعاون بڑھانے کیلئے پُرعزم ہے تاکہ بین الاقوامی پانیوں میں آزاد جہاز رانی اور معاشی سرگرمیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ گزشتہ اکتوبر میں پاک بحریہ، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور امریکی نیوی (NAVCENT) کی جانب سے مشترکہ سمندری پٹرولنگ کی گئی جو مستقبل میں ہماری مشترکہ کاوشوں کا مظہر ہے۔پاکستان میں زندگی بچانے والی ادویات کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے امریکی کمپنیز کی خدمات کو پاکستان میں موجود امریکی مشن کی جانب سے سراہا جاتا ہے۔امن 2023، امریکا اور پاکستان کے درمیان مضبوط عسکری تعلقات و تعاون کی نمایاں مثال ہے۔امریکا نے پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی، تعلیم، شفاف توانائی سمیت عوامی سطح پر تعاون اور باہمی تجارت کو وسیع تر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا پاکستان کو 32منصوبوں کےلئے فنڈز فراہم کر رہا ہے، پاکستان میں منصوبوں کی بحالی کےلئے بہترین اقدامات ہو رہے ہیں۔
اداریہ
کالم
حکومت غریب کش فیصلو ں سے گریزکرے
- by Daily Pakistan
- فروری 17, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 751 Views
- 2 سال ago