کالم

حکومت پی ٹی آئی مذاکرات

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے مصالحتی کردار اورجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی شٹل ڈپلومیسی کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومت مذاکرات پر آمادہ ہوئے ۔ انہوں نے عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کرکے انہیں بات جیت کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کو بات چیت کے لیے آمادہ کیا۔ بلاول بھٹو نے مولانا سے ملاقات کرکے انہیں منانے کی کوشش کی لیکن دونوں فریقوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مزاکرات کا آغاز نہ ہو سکا۔ پنجاب کے انتخابات کے لیے اکیس ارب ریلیز کرنے کا بل پارلیمنٹ نے مسترد کر دیا ۔ وزیرعظم شہباز شریف نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور ایک سو اسی ارکان اسمبلی نے ان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوے کہا پارلیمنٹ کی بالا دستی پر سمجھوتا نہیں ہوگا ۔ جب سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے دونوں فریقوں کو ایک بار پھر آئین کی خاطر مذاکرات کرنے کا کہا ۔ جماعت اسلامی اور چیرمین سینٹ کی کوششوں سے حکومت اور پی ٹی آی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ مولانا نے بھی ایک پریس کانفرنس میں ان مزاکرات کو سراہا ۔ مذاکراتی ٹیم میں تحریک انصاف کی نمایندگی شاہ محمود قریشی سینٹر علی ظفر اور فواد چوہدری کر رہے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی ٹیم میں پی پی پی کے یوسف رضاگیلانی نوید قمر مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ اسحق ڈار خواجہ سعد رفیق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور ایم کیو ایم کی محترمہ کشور شامل ہیں ۔ مذاکرات کے دو ادوار ہو چکے دونوں فریقوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا مزاکرات بڑے خوشگوار ماحول میں ہوئے۔ اپنی اپنی تجاویز ایک دوسرے کے سامنے رکھیں۔ صحافیوں کے اصرار کے باوجود دونوں طرف سے ان تجاویز کی تفصیل صحافیوں کو نہیں بتائی گئی۔ حکومت نے اسمبلیاں توڑ کر بجٹ کے بعد ستمبر میں انتخابات کی پیشکش کی ہے جبکہ پی ٹی آئی جلدی انتخابات چاہتی ہے ۔ عمران خان کی جماعت نے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہیے عمران خان نے کہا اگر چودہ مئی کے اندر اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں تو ایک دن الیکشن کے لیے تیار ہیں ۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماوں کی گرفتاریوں اور پرویز الہٰی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے سے مذاکراتی عمل متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ووٹ منتخب ہونے والی اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے۔ دونوں طرف سے کہا گیا کہ کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے برف کچھ پگلی ہے۔ امیدہے کہ الیکشن ایک ہی دن میں انعقاد کا کوئی حل نکل آئے گا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ سے دو دفعہ منظوری کے بعد دوبارہ صدر کو بھیجا گیا لیکن دوسری دفعہ بھی بغیر صدر کے دستخط واپس آ گیا اور وہ بل دس روز بعد خود قانون بن گیا ۔ حکومت نے اس کا باقادہ گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ عدالت عالیہ ایک حکم کے ذریعے اس بل پر عملدرآمد معطل کر دیا سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے لیے آٹھ رکنی بینچ تشکیل دے کر دو مئی سے سماعت کا آغاز کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 27 اپریل کی ڈیڈ لائن دی لیکن دونوں طرف سے مذاکرات نہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ گئی نواز شریف بھی کافی متحرک نظر آرہے ہیں ان کی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان سے تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال پر بھی بات ہوئی۔ تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ملک بھر میں لوگ پھٹ پڑے ہیں کہ قربانیاں عام کارکنوں نے دیں پولیس کے ڈنڈے کھائے جیلیں برداشت کیں ٹکٹوں کی تقسیم میں 2018کی طرح الیکٹیبل کو ٹکٹوں سے نوزا گیا ۔کئی شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے مظاہرے بھی کئے۔ پی ٹی آئی کے کی بڑے رہنماو¿ں شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کو بھی ٹکٹ نہ ملنے کا گلا ہے ۔ عمران کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہو سکتاہے کہ وہ پنجاب کی وزارت اعلی کے امیدوار ہوں۔ عمران خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم پر نظر ثانی کریں گے ۔ پوری قوم کی نظریں حکومت اور پی ٹی آئی مزاکرات پر لگی ہوئی ہیں ۔ یہ جمہوریت کی فتح ہے کہ ملک بھر کی سیاسی قیادت آخر کار مزاکرات کی میز پر آ گ ہے پی ٹی آئی مزاکرات کو طول دینا نہیں چاہتی ۔ اگر حکومت الیکشن سے پہلے بجٹ پیش کر کے عوام کو بہت زیادہ ریلیف دے دیتی ہے تو حکومتی ووٹ بینک میں اضافہ ہو گا جو تحریک انصاف کےلئے بہتر نہیں ہو گا اس سلسلے میں کچھ لو اور کچھ دو کے تحت کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔دونوں جماعتیں مل بیٹھ کر باہمی مشاورت سے بجٹ تیار کر سکتی ہیں لیکن کیا اتحادی حکومت اس پر راضی ہوگئی۔دونوں طرف سے مزاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی بریک تھرو ہوگا اور دونوں فریق ایک ہی روز انتخابات کے انعقاد کے کسی فارمولے پراتفاق کر لیں گے اور ملک میں سیاسی اورمعاشی غیر یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے