کالم

حکومت کا دم واپسیں

چی جلدی تمام ہو جائے گا ،یہ انہیں علم تو تھا، پر اس امر پر صبر کر لینا ان کے لیے کافی دشوار بلکہ دشوار گزار معلوم ہو رہا ہے۔سوالات کئی ہیں ،یعنی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کرنے پر تحلیل ہوں گی یا چند یوم پہلے توڑدی جانی چاہئیں؟ نگران وزیراعظم کسے لگانا یا بنانا یا اٹکانا چاہیئے؟ وہ کس کی مرضی کا ہو گا؟ یہ اور اس طرح کے ان گنت سوالات شہباز شریف کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کر رہے ہیں ۔ایک غیر محتاط اندازے اور غیر مستند خبر کے مطابق شہباز شریف نے سادہ کاغذ پر مرزا غالب کا ایک شعر ؛
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں میں
لکھ کر رکھا ہوا ہے اور دن کے مختلف اوقات میں اس کاغذ کو کھول کر ہونٹ ہلا ہلا کر اس شعر کا ورد کرتے رہتے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ دراصل چھوٹے میاں صاحب اپنی وزارت اعظمیٰ کے آخری ایام میں اس شعر کو زبانی یاد کر لینا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس شعر کو پڑھتے ہوئے منہ زور زور سے ہلاتے ہیں۔اس ایک بات سے ان کی کیفیات قلبی و ذہنی کا اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے۔خیر شہباز شریف اس پندرہ ماہ کی وزارت اعظمیٰ میں اتنا تو سیکھ ہی گئے ہیں کہ کامیاب اداکاری میں اگر آپ کے کردار کی ڈبنگ کوئی دوسری آواز کر رہی ہو ،تو پھر آپ کو ان مکالموں کی ادائیگی پر اپنا منہ بولے گئے الفاظ کے عین مطابق کھولنا اور بند کرنا پڑتا ہے۔اسی تسلسل میں یہ تاثر بھی دینا پڑتا ہے کہ جو چاہیں سو ہم ہی کر رہے ہیں ،اس حوالے سے کسی اور کو بدنام نہ کیا جائے۔اسی ضمن میں انہوں نے عام انتخابات اور نگران حکومت کے قیام اور ترتیب پر مشاورت کرنے کے لئے مسلم لیگ ن کے سینئر ترین رہنماو¿ں پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ،تاکہ یہ تاثر پختہ ہو سکے کہ سب کچھ ہماری منشا کے مطابق ہو گا ۔کمیٹی میں ن لیگ کے سارے سرجن تارے شامل ہیں مثلاً خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، ایاز صادق ،احسن اقبال اور اسحاق ڈار ۔یہ کمیٹی پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں سے بات چیت کرے گی۔پاکستانی سیاسیات میں سیاسی جماعتوں کے آپس میں مذاکرات کرنے کا مطلب مقتدر حلقوں کی جانب سے حتمی فیصلے کا انتظار ہوتا ہے۔شہباز شریف نے ن لیگ کی مذاکراتی کمیٹی کو براہ راست نواز شریف سے رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہ نظر آتی ہیں ،ایک یہ کہ بطور وزیر اعظم اپنی معلومات کی وجہ سے شہباز شریف کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ اب نواز شریف پاکستان سے صرف رابطے ہی میں رہ سکتے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ؛ شہباز شریف کے پاس اطلاعات تھیں کہ ان کی جماعت کے تمام کلیدی اراکین ہمہ وقت بڑے میاں صاحب سے ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ انہیں اس طرح کی ہدایات لینے اور ان پر عمل کرنے میں کسی دقت یا دشواری کا سامنا اس لیے نہیں کرنا پڑتا کہ وہ تمام ہدایات اس کلیدی نکتے پر مشتمل ہوتی ہیں کہ؛ جس طرح وہ کہتے ہیں ،اسی طرح کرتے جاو¿ ،بس ان کو ناراض نہیں ہونا چاہیئے۔یہی وجہ ہے کہ سوائے خواجہ آصف اور کبھی کبھی احسن اقبال کے ،کسی دوسرے ن لیگی راہنما کی آواز میڈیا میں سنائی نہیں دیتی ۔نہ صرف آواز ،بلکہ منہ بھی۔ایک شنید یہ بھی ہے کہ خفیہ اداروں میں شامل بعض ہمدرد عناصر نے یہ اطلاع بھی ارزاں کر دی ہے کہ؛حکومت اپنی ڈیڑھ سالہ کارکردگی کی وجہ سے اپنے ووٹرز کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ہے ۔ بڑی وجہ تو حکومت کی طرف سے آئی ایم۔ایف کے نام پر پاکستانی شہریوں پر ٹیکسوں کی برسات ہے ۔ دراصل محکمہ موسمیات اس سال معمول سے زیادہ جن تند و تیز بارشوں کی پیش گوئی کرتا آرہا ہے ، وہ دراصل بے انتہا ٹیکسوں اور لاپروا مہنگائی کی بارشوں کی طرف اشارہ تھا ۔آج کل محکمہ موسمیات کی پیشگوئیاں زیادہ تر صحیح یا صحیح کے قریب تر نکلتی ہیں ۔ٹیکسوں کی انتہا تو یہ ہے کہ اس چند روزہ حکومت نے جاتے جاتے بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس کے ساتھ ریڈیو فیس بھی شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اگر ٹیکسوں اور مہنگائی کے مارے مظلوم لوگوں کو ذرا سی فرصت بھی ہو تو ؛ قوم کو ایک یوم نفرین منانا چاہیے۔اس یوم نفرین میں پوری قوم کو اجتماعی طور پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ایجنٹوں ، ہرکاروں اور خدمت گزاروں کی حکومت پر اپنی اپنی مادری زبانوں میں دان کرنی چاہئے۔پاکستانی آج تک یہ راز سمجھ نہیں سکے کہ ؛آخر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا قرض خرچ کہاں پر ہوتا ہے۔؟ پاکستانیوں کے لیے حکومت کے پاس علاج ، تعلیم ،روزگار اور رہائش کے حوالے سے کوئی فنڈز نہیں ہیں ۔تو پھر یہ جو مٹھیاں اور جھولیاں بھر بھر کر قرض لیے جاتے ہیں،وہ جاتے کہاں پر ہیں؟یہ ایک بہت بڑا اسٹیٹ سیکرٹ ہے ۔ ستم ظریف کا خیال ہے کہ ان بھاری قرضوں سے سب سے پہلے حکومت اپنی اور حکومت سے متصل و منسلک بیوروکریسی کی تنخواہوں ، الاونسوں اور مراعات میں موثربہ ماضی اضافے کرتی ہے۔پھر یہ دائرہ پھیلنا شروع ہوتا ہے ، قومی اسمبلی ، سینٹ کے متعلقین و ملازمین کو مالا مال کیا جاتا ہے۔اس کے بعد عدلیہ کی تنخواہوں سے لے کر مراعات تک میں بے پناہ اضافے کر دیئے جاتے ہیں ۔عام ملازمین ہر قسم کی مراعات سے محروم رکھے جاتے ہیں ،تاکہ ان کا طبقاتی شعور پرورش پا سکے ۔اس بار یہ تجربہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کیا گیا، جہاں کے ملازمین کو ،جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں ، مشق ستم بنایا گیا۔اساتذہ و ملازمین نے شدید گرم موسم میں لاہور میں احتجاج کیا ،کسی نے بھی ان کی فریاد پر کان نہیں دھرا ۔ کچھ وعدے کر کے ان کو ٹرخا دیا گیا تھا ،وجہ وہی کہ پیسے نہیں ہیں۔اب سوال پیدا ہوا کہ قرض کے پیسے جاتے کہاں ہیں؟ اس سوال کا مکمل جواب تو شاید کبھی نہیں مل پائے گا پر تھوڑا سا اشارہ تو مل ہی گیا ہے۔یعنی جس پنجاب کی حکومت کے پاس اپنے اسکول کالج اساتذہ اور دیگر ملازمین کو تنخواہوں اور پینشن میں مرکز اور دیگر صوبوں کے مساوی اضافہ دینے کے لیے پیسے نہیں تھے(اب سنا ہے کہ پنجاب کے ملازمین کی شنوائی ہو گئی ہے)۔ایک اخباری خبر کے مطابق ،اسی پنجاب حکومت نے اپنے تمام اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل کمشنرز کو نئی نکور گاڑیاں خرید کر دینے کیلئے 3.2 ارب روپے کا اجرا منظور کر لیا ہے۔20 جولائی کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمیشنر کو نئی فور بائی فور REVO ڈبل کیبن مینوئل ٹرانسمشن فراہم کی جائے گی۔ہر ضلع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز (جنرل)کو نئی 13 سو سی سی YARIS فراہم کی جائے گی جبکہ ہر ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنرز کو 16 سو سی سی Corolla Altis پر سوار کیا جائے گا ۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جو گاڑیاں اس وقت اسسٹنٹ کمشنرز کے زیر استعمال ہیں وہ تحصیلداروں کو الاٹ کی جائیں گی۔ شرلی بے بنیاد کہتا ہے کہ شاید اس سے پہلے یہ سارے کے سارے عہدیدار اور اہلکار گدھوں پر ، یا گڈوں پر یا تانگوں پر سوار ہو کر دفتر آیا جایا کرتے تھے ۔اور اپنی حالت پر ہمہ وقت شرمندہ رہا کرتے تھے۔اب حکومت کے آئی ایم ایف سے لیے بھاری قرض سے گاڑیاں خرید کر دینے سے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہماری بیوروکریسی شدید احساس کمتری کے کنویں سے باہر نکل آئے گی۔ستم ظریف اسے ن لیگی حکومت کی طرف سے پنجاب کی انتظامیہ کے لیے ایک پیشگی اشارہ قرار دیتا ہے ۔شریف برادران نے ہمیشہ ووٹ کی بجائے بیوروکریسی اور عدلیہ میں ہم خیال گروپ تخلیق کرکے امور مملکت چلائے ہیں۔لیکن واقفان حال ،اپنے موثر بہ ماضی علم کی بنیاد پر جان چکے ہیں کہ اب نواز شریف مقیم لندن پہلی بار پوری سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ اپنے جسمانی اور روحانی علاج پر توجہ مرکوز کرسکیں گے۔وہ جو اسلام آباد میں مشہور تھا کہ ہر پوسٹنگ ،ہر ٹرانسفر اور ہر پراجیکٹ کا حتمی فیصلہ ایم این ایس کے فون پر کیا جاتا ہے ،اب وہ بھی قصہ ماضی ہونے کو ہے۔رہے نام اللہ کا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے