کالم

خالصتا ن کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے

riaz chu

آسٹریلیا میں بھارت سے آزادی اور خالصتان کے قیام کےلئے ریفرنڈم ہوا، جس میں 31 ہزار سے زائد سکھوں نے حق میں ووٹ دے کر نام نہاد سیکولر اسٹیٹ کا پردہ چاک کر دیا ۔ آسٹریلوی شہر سڈنی میں مقیم ہزاروں سکھوں نے انڈی پینڈنٹ پنجاب ریفرنڈم کمیشن کی جانب سے کرائی جانےوالی ووٹنگ میں صبح 9 سے شام تک ووٹ کاسٹ کیے۔ ووٹ ڈالنے کےلئے آنےوالے سکھ خالصتان کے قیام کے حق اور بھارت سے علیحدگی کےلئے پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ مودی سرکار کی ایما پر سڈنی میں مقیم بھارتی کمیونٹی نے ریفرنڈم رکوانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا لیکن آسٹریلوی حکومت نے پرامن ریفرنڈم کے جمہوری عمل کو رکوانے سے معذرت کر لی۔ اس طرح ریفرنڈم رکوانے کی تمام مذموم کوششیں ایک بار پھر ناکام ثابت ہو گئیں۔ خالصتان کے قیام کےلئے آسٹریلیا میں ریفرنڈم کا یہ تیسرا مرحلہ تھا اس سے قبل دیگر شہروں میلبورن اور برسبین میں بھی ریفرنڈم کا انعقاد ہو چکا ہے۔ میلبورن میں 50 ہزار اور برسبین میں 11 ہزار سے زائد سکھوں نے خالصتان کے قیام کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔سکھ علیحدگی پسند تحریک جو 80ءکی دہائی کے اوائل میں بہت پرجوش اندازمیں شروع ہوئی اور اگلے دس پندرہ برسوں میں کچل دی گئی لیکن بھارت میں غیر ہندووں کے ساتھ بہیمانہ اور امتیازی سلوک نے سکھوں کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان کا ہندووں کے ساتھ کسی صورت گزارا ممکن نہیں ہے۔ جس کے بعد یہ تحریک اب ایک بارپھر اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن ایک نئے انداز اور نئے جوش و خروش کیساتھ اور منزل آزاد مملکت خالصتان ہی ہے۔ آپریشن بلیو سٹار تین سے آٹھ جون 1984ءکو امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ میں ہوا۔ آپریشن میں بھارتی فوج کے10 ہزار فوجیوں، سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے 700 اہلکاروں، بارڈر سیکورٹی فورس کے ڈیڑھ سو اہلکاروں سمیت پنجاب پولیس کی بڑے پیمانے پر نفری نے حصہ لیا جبکہ فضائیہ نے بھی مدد کی۔ آپریشن کے نتیجے میں ہزاروںسکھ ہلاک ہوئے۔ان میں خالصتان تحریک کے قائد سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی تھے۔بھارتی فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز نے اس اندھا دھند آپریشن میں ہر سکھ کو علیحدگی پسند سمجھا یوں انھوں نے 5000عام شہریوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا۔ سکھ قوم برسوں سے جون کے پہلے ہفتے میں اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے تاہم اس بار مودی سرکار نے اعلان کیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کا نام کسی کی زبان پر نہ ہو چنانچہ ہرایسی تقریب کو الٹ دینے کا حکم دیا گیا ۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے ۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وژن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیاہے ، اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیاہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔ ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا۔ ایسے میں اس کی معیشت کا کیاہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیںبھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان پر گزشتہ کئی برسوں سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان خالصتان علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان پر الزام عائد کرنے والے ہمیشہ یہ سچ جان بوجھ کر فراموش کردیتے ہیں کہ آپریشن بلیوسٹار کے اثرات سکھوں پر ابھی تک ویسے ہی تازہ ہیں وہ نہ اسے بھول سکتے ہیں نہ بھولنے کی کوشش کرتے ہیں کو بھول رہے ہیں۔ کیونکہ کوئی قوم اپنے ساتھ اس قدر بڑی زیادتی اور ظلم کو بھلانہیں سکتی بالخصوص سکھ قوم ایسا کرہی نہیں سکتی۔ ایسی قوم کے انتقامی جذبات ہی کسی بڑی تحریک کی بنیاد بن جاتے ہیں اسے کسی دوسری قوم یا ادارے کی مدد کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔شدت پسندی کے خلاف برطانوی حکومت کی کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ بھارت کے اندر خالصتان تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔ بھارت نے خالصتان تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جس پر سکھ ناراض ہوئے۔ سکھ بھارتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔برطانیہ میں مقیم ہندوو¿ں اور سکھوں کے درمیان بھی تناو¿ موجود ہے۔ اوورسیز سکھ کمیونٹی اپنی شناخت سے متعلق زیادہ حساس ہیں۔ وہ خالصتان تحریک کے حوالے سے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد سے خالصتان کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی سکھ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔سکھوں کی اکثریت اب الگ ملک کا قیام چاہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے