کالم

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

انتخابی منشور۔

پاکستانی قوم کو شاید نسیان کا مرض لاحق ہو چکا ہے یہ بہت جلد خوبیوں اور خامیوں کو بھول جاتی ہے جو بھی خوش کن نعرے لگاتا ہے اس کے حصار میں گرفتار ہوکر وعدہ فردا کا نعرہ لگانےوالی جماعت کے سحر میں مبتلا ہوجاتی ہے اگر یاد داشت پر تھوڑا سا زور ڈالیں تو یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوگی کہ پاکستان تحریک انصاف کو جب 2018ءمیں اقتدار نصیب ہوا تو لوگوں کو نئے پاکستان کی حالت زار کی بہتری کی امید نظر آنے لگی مگر بقول خورشید رضوی ، اسے کیا خبر کہ میں خواب ہوں ہوں وہ جوگم ہے میری تلاش میں- عوام پہلے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کالے کرتوتوں سے تنگ آ گئے تھے اور ان سے جان خلاصی کے خواہاں تھے۔ اس لیے عمران خان سے بہتر انہیں کوئی دوسرا قائد نظر نہیں آرہا تھا چاروناچار خاں صاحب کی 22 سالہ جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے قوم نے پاکستان تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران قوم کو حسین و جمیل خواب دکھائے، جیسا کہ نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، سستا انصاف، سستی روٹی، بجلی و گیس کی بلا تعطل فراہمی وغیرہ وغیرہ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح، پاکستان تحریک انصاف نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھ کر عوام کو سبز باغ دکھائے۔اور چراغ حسن حسرت کے اس مصرعے پر خوب عمل کرکے دکھایا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا عمران خان کی خوش نصیبی سمجھیے کہ وہ واحد لیڈر ہے جسے سب اداروں نے بہت سپورٹ کیا.اور ابھی تک کر رہے ہیں اور بالخصوص میڈیا نے تو عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا اورعمران خان کو مسیحا کے روپ میں پیش کیا۔نواز شریف کی کرپشن کے قصوں کو زیب داستاں کے طور پر لیا گیا – پاناما پیپرز کے حوالے سےجب عمران خان نے لانگ مارچ شروع کیا تو میڈیا نے بھرپور ساتھ دیا، 126 دن کے دھرنے کو لمحہ بہ لمحہ نشر کرنے کو دونوں جہانوں کی کامیابی کا راز سمجھا گیا۔ اورعمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے جہاں طاقتور اداروں نے اپنی عافیت محسوس کی اسے لانے میں اپنا جناتی کردار ادا کیا وہاں میڈیا کے لازوال کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مگر اس کا کیا علاج کے خان صاحب کو اللہ نے طبیعت ہی ایسی سرفراز فرمائی ہے کہ عمران خان اپنے محسن کو بہت جلد بھلانے میں ماہر ہیں جس پر انہیں کبھی تاسف بھی نہیں ہوا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد خاں صاحب نے جو کچوکے میڈیا انڈسٹری کو لگائےاور بقول اقبال کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم ہری ہری اشتہارات اور انکے ریٹس میں نمایاں کمی ہوئی۔ چینلز پر پابندیاں لگانا شروع کر دی گئیں اور پیکا جیسے آرڈیننس کے ذریعے آزادی صحافت کا گلہ دبانے کی کوشش کی گئی۔تو بات ہو رہی تھی اپنے محسنوں کو بھلانے کی انکے قریبی دوست جہا نگیر ترین اور علیم خان بھی اسی مروت میں مارے گئے کہ خان صاحب انکا خیال رکھیں گے۔ جہانگیر ترین نے تو اپنا ذاتی طیارہ عمران خان کے حوالے کر دیا تھا اور وہ خود بندوں کو اکٹھے کر کر کے لاتے رہے، اس بات سے خان صاحب بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اقتدار کے تخت پر پہنچنے تک جہانگیر ترین کا اہم کردار رہا ہے.اوربقول ہمارے ایک ابھرتے ہوئے نوجوان صحافی لقمان شیخ کے کہ پھر اسکے بعد علیم خان وہ شخص ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں عمران خان کا ساتھ دیا، 2011ءکا مینار پاکستان کا کامیاب جلسہ علیم خان کی بدولت ہی ہوا تھا. علیم خان کو پاکستان تحریک انصاف کی اے ٹی ایم مشین کہا جاتا تھا. انھوں نے پارٹی کےلئے بیش بہا پیسا لگایا اور پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب میں مضبوط بنایا۔عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک کو نیب نے دھرلیا اور دوسرے پر ایف آئی اے نے کیسز بنائے ۔اب دونوں عمران خان سے باغی ہیں ۔ قارئین، کہا جاتا ہے کہ عمران خان ایک ایماندار سیاستدان ہیں لیکن پنجاب میں جو ہو رہا ہے اس پر خاموش رہنا، کیا ایمانداری کے زمرے میں آتا ہے ۔عمران خان پرآج جو مشکل وقت آن پڑا ہے اس کے ذمے دار عمران خان خود ہیں۔ ایک طاقتور ادارے کے سربراہ کی ایکسٹینشن پر وزیر اعظم ہاﺅس سے ڈرامہ رچایا گیا پھر قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کی تقرری پر تماشا لگایا گیااور اب تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نیوٹرل ہونے پر اداروں کے خلاف دشنام طرازی پر اترآئی ہے۔ ایک قول ہے کہ اقتدار انسان کو بے نقاب کر دیتا ہے۔عمران خان نے اقتدار میں رہ کر اپنے پرانے ساتھیوں اور میڈیا کو بھلا دیا اور انکو انتقام کا نشانہ بھی بنایا۔ عمران خان کی اسی روش کو دیکھتے ہوئے ان کے اپنے ایم این ایز منحرف ہو گئے۔ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد سیاسی کھیل اب آخری اوورز میں ہے ۔ اپوزیشن تو بھرپوراعتماد میں ہے کہ یہ کھیل جیت جائیں گے دوسری طرف عدم اعتماد میں اگر باغی اراکین ووٹ نہ ڈال سکے تو پھر اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی حکومتی اتحادی بھی ابھی انتظار کرواور دیکھو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ بہرحال سیاسی کھیل آخری اوورز میں ہے اور حکومتی ٹیم اس مرتبہ گھبرائی ہوئی ہے۔ ذرائع تو یہی کہتے ہیں حکومت کا بچنا مشکل ہے لیکن سیاست بھی ٹی ٹونٹی کی طرح نا قابلِ اعتبار کھیل ہے تو ہم بھی دیکھتے اور انتظار کرتے ہیں۔ اور بقول غالب
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
ہم نے مانا کے تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
اب دیکھتے ہیں کہ صبر طلب عاشقی اور بے تاب تمنا کے درمیان مصیبتوں کے اس پہاڑ کو سر کرنے میں کس کا خون جگر کام آتا ہے اور کون عمران کے دام فریب میں پھر سے آتا ہے یا پھر ان مگرمچھوں کا لقمہ بنتا ہے جو پہلے ہی ملک اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو تباہ کر چکے ہیں اور اس کی رہی سہی کسر نکالنے کے لیےپرتول رہے ہیں خدا اس ملک پر اپنا خصوصی فضل و کرم کرے
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri