آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اور مختلف ایپلیکیشنز گوگل پلے سٹور پر پڑی ہوئی ہیں جو انسانی زندگی میں بے پناہ معلومات کا باعث ہیں اس وقت تقریباً 27لاکھ سے زائد ایپ موجود ہیں ہم اس ٹیکنالوجی میں دنیا سے بہت دور اور پیچھے ہیں پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے پنجاب میں ایک ایسی ایپلی کیشن متعارف کروائی ہے جو بچھڑے ہوئے لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملانے میںاہم سنگ میل ثابت ہوگی اس ایپلی کیشن کا نام بھی میرا پیارا رکھا گیا ہے اس ایپ کے ذریعے گمشدہ بچوں، بزرگوں، مریضوں کو ورثا سے ملایا جائے گا اس ایپ میں گمشدہ بچے اور افراد، ان کے لواحقین کا بائیو ڈیٹا، تصویر، فنگر پرنٹ، شناختی کارڈ اور ب فارم کی تفصیلات ہوں گی گمشدہ بچوں، افراد اور ان کے لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرائے جائیں گے اور پنجاب بھر کے تھانوں میں گمشدگی کی رپورٹس کا ڈیٹابھی تیار کیا جائے گا یتیم خانوں، دارالامان اور دیگر اداروں میں مقیم بچوں اور افراد کا ڈیٹا بھی میرا پیارا ایپ پر موجود ہوگا شہری اب اپنے موبائل فون، فرنٹ ڈیسک، تحفظ مرکز اورخدمت مرکز کے ذریعے گمشدگی کی رپورٹ میرا پیارا پر لوڈ کر سکیں گے اور اپنے پیاروں کو اسی ایپ کے زریعے ڈھونڈ بھی سکیںگے پنجاب حکومت کا پیاروں کا پیاروں سے ملانے کا یہ اقدام قابل تحسین ہے اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے مزدروں کی خوشحالی کے لیے کم ازکم اجرت 7ہزار روپے اضافے سے 32ہزارروپے مقررکردی جو پہلے 25ہزار تھی اور یہ صرف پنجاب حکومت کا ہی کارنامہ ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ مہنگائی ،غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ مفت آٹے کی تلاش میں بہت سے پیارے اپنے پیاروں سے بچھڑ چکے ہیں ملک میں مہنگائی کی شرح میں55 فیصد اضافہ ہو چکا ہے زرعی ملک ہونے کے باوجودپاکستان غذائی قلت کا شکار ہے ملک میں تقریبا 220 ملین افراد رہتے ہیںپھر بھی تقریبا 40 فیصد آبادی خوراک کی عدم تحفظ کا شکار ہے مہنگائی و بے روزگاری عروج پر ہے اورمتوسط طبقے کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ماہ صیام میں آٹا، چینی، سبزیاں، دالیں، گوشت، مچھلی، چاول، جان بچانے والی ادویات اور خوردنی اشیاءعوام کے دسترس سے دور ہو گئی ہیں ملک بھر میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال نظر آرہی ہیں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے غریب عوام اشیائے خورد و نوش مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے غریب عوام کو ذخیرہ اندوزوںاور خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑرکھاہے ذخیرہ اندوز اور خود ساختہ و مصنوعی مہنگائی کرنے والے سرکاری نرخ نامہ محض ایک کاغذی ٹکڑا سمجھ کر پھینک دیتے ہیں حکومت کی جانب سے سستے اور مفت آٹے کا اعلان بھی ایک مذاق بن چکا ہے غریب عوام سستے اورمفت آٹے کے حصول میںاپنی جانیں گنوا رہے ہیں حکومت مفت آٹے کے نام پر بزرگوں،بچوں اور خواتین کو ذلیل و رسوا کررہی ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے حکمرانوں نے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ہوشربا مہنگائی نے سرکاری ملازمین کی بھی کمر توڑ رکھی ہے تنخواہیں و مراعات محدود اور مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے انکے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو چکا ہے حالیہ مہنگائی کے تناسب سے اتنی قلیل تنخواہوں میں گزارہ مشکل ہو چکا ہے گھریلو اخراجات پورے نہیں ہو رہے ہےںاور ہمارے حکمران گزشتہ 75 سالوں سے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ہماری اشرافیہ سالانہ اربوں روپے کھا جاتی ہیں مجال ہے ہمارا ملکی نظام کسی پر لوٹ مار کا ایک روپیہ ثابت بھی کرسکاہو ملک کا بچہ بچہ آج آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا مقروض ہے اور ہمارے دیانت دار اور ایماندارحکمران ارب پتی بنتے چلے جارہے ہیں بدقسمتی سے حکمران طبقہ اپنا بچاﺅ،مقدمات ختم کرنے اورلوٹ مار چھپانے کیلئے قانون سازی کر رہاہے صاف نظر آتا ہے کہ عوام کی پریشانی مشکلات ،مہنگائی ،بھاری سودی قرضے وملک ڈوبنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی مظلوم وپریشان حال عوام کا کوئی پرسان حال ہے ہر طرف ناانصافی ،ظلم وجبر ،لوٹ مار ،بھتہ خوری کا راج ہے اوپر سے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے حکمران 22کروڑ عوام کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں بجلی پر 3.23روپے فی یونٹ فکس سرچارج کے اضافے سے صارفین پر 335ارب روپے کااضافی بوجھ پڑے گا عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں کسانوں اور برآمدی شعبوں کے لئے سبسڈی ختم کرنے سے جہاں ایک طرف غریب کاشتکار وں کی کمر ٹوٹ جائے گی وہاں دوسری جانب انڈسٹریز بھی تباہ ہو جائے گی اس وقت عوام کے آمدن کے ذرائع مخدوش اور اخراجات کا گراف آسمان سے باتیں کر رہا ہے پی ڈی ایم کی ناکام حکومتی پالیسیوں کی بدولت غربت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 116ممالک کی فہرست میں 92ویں نمبر پرپہنچ چکا ہے ملک میں شرح غربت 47فیصد ہو چکی ہے چند ماہ قبل آنے والے سیلاب سے پاکستان کے 90 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے گر چکے ہیں جوخطرے کی گھنٹی ہے اس سے پہلے یہ تعداد 58لاکھ افراد پرمشتمل تھی اس وقت 3.4 ملین سے زائد بچے بھوک کا شکار ہیں گزشتہ سال کے سیلاب نے خوراک کے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے سیلاب نے آٹھ لاکھ ہیکٹر پر کھڑی فصلوں کا صفایا کر دیاتھا متاثرہ لوگ اب بھی حکومت کی طرف کسی بامعنی مدد کے منتظر ہیں ملک میں اس وقت نہ صرف غذائی قلت بڑھتی جارہی ہے بلکہ سیاسی معاشی اور غذائی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے دوسری طرف بنگلہ دیش اپنے پڑوسیوں بھارت اور پاکستان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گلوبل ہنگر انڈیکس میں 107 ممالک میں 13 درجے آگے بڑھ کر 75 ویں نمبر پر آگیا ہے اورہم حد سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی ضروریات کے عدم تحفظ کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار بنتے جارہے ہیں مفت آٹا تقسیم کرنے والے مقامات پر بھگدڑ میں لوگ ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں کراچی میںایک ہی دن 12افراد زندگی کی بازی ہار گئے جس سے عوام میں اشتعال بڑھ رہا ہے اب بھی صورتحال کو بے قابو ہونے سے قبل کنٹرول کرلیا جائے تو بہتر ہے ورنہ ملک تو ہرطرف سے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے زرمبادلہ کے ذخائر ناکافی ہیں اور کرنسی کی قدر میں بھی کمی ہو رہی ہے جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
کالم
خط غربت اور خطرے کی گھنٹی
- by Daily Pakistan
- اپریل 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 476 Views
- 2 سال ago