کالم

خلیفہ ہارون کادورحکومت

عباسی خلیفہ ہارون الرشید 170ھ میں مسند خلافت پر بیٹھا۔خلیفہ ہارون نے چٹھے خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز ؒکی سنت پر عمل کرتے ہوئے علویوںسے نہایت اچھا سلوک کیا۔ قید و بند کی پابندیاں اُٹھا دیں۔ بغداد میں جوقید تھے ان کو رہا کر دیا۔ ان کو مدینہ جانے کی اجازت دی۔ ان کی ضبط شدہ املاک واپس کر دیں ۔ مگر اس حسن سلوک کے باوجود علویوں نے چند مقامات پر شورشیں برپا کر کے خلافت کو اپنے خاندان میں منتقل کرنے کی ناکام کوشش کی۔176ھ میں نفس زکیہ کے بھائی عیسیٰ بن عبداللہ نے ویلم میں علم بغاوت بلند کیا۔ہارون نے ان کی سرکوبی کے لیے فضل بن یحییٰ بر مکی کو پچاس ہزار سپاہ کے ساتھ روانہ کیا ۔ اس نے باغیوں کو صلح پر راضی کر کے خلیفہ کے پاس پیش کیا۔ ہارون نے ان کی آﺅ بھگت کی انعام اکرام سے نوازا۔ آخر میں ان کو قید کیا وہ اس قید میں ہی وفات پا گئے۔عیسیٰ کا اور بھائی، ادریس ہادی کے زمانہ میں بھاگ کر افریقہ چلا گیا تھا۔ علاقہ فاس کے باشندوں نے اس کی بیعت کر کے اپنا امام تسلیم کر لیا ۔ 172ھ میں مراکش میں ادریسی حکومت ڈالی ۔ ادریس کو منصور نے مروا ڈالا۔ ادریس کے پیروں کاروں نے اس کے نابالغ بچے کو امام مان کر مشیروں نے حکومت چلائی۔ اس طرح افریقہ کا حصہ بنی عباس کی سلطنت سے نکل گیا ۔ اس پر ہارون نے اہل بیعت پر کڑی نگرانی شروع کی ۔ ان کے حامیوں پر سختیاںکیں۔ حفظ ما تقدم کے طور پر امام موسیٰ کو بغداد میں نظر بند کر دیا۔افریقہ میں بغاوت ہوئی اور افریقہ کا یہ حصہ عباسی سلطنت سے نکل گیا۔ہارون نے افریقہ کی بغاوت کو ختم کرنے کےلئے ہرثمہ بن اعین اور عیسیٰ بن موسیٰ کو مامور کیا۔ کئی معرکوں کے بعد افریقہ کی بغاوت پر قابو پالیا گیا۔چھوٹے چھوٹے سرداروں نے بغاوت جاری رکھی تو ان کی سرکوبی کے لیے ہارون نے مقاتل کو قیروان کا گورنر مقرر کیا۔ اس نے ہمت ہار دی۔ پھر ابراہیم بن اغلب والی زاب نے باغیوں شکست دے کر امن امان قائم کیا۔ اس کی بہادری پر ہارون نے اسے افریقہ کی مستقل امارت دے دی۔ یہ عباسی خلیفہ کو چالیس ہزار درھم سالانہ خراج دیتا تھا۔184ھ میں وہ خود مختیار حکمران بن بیٹھا اور اغلبی خاندان کا بانی ٹھہرا۔ ہارون نے خارجیوں کی بغاوت کو بھی کچل دیا۔شام و سندھ اور موصل کی بغاوتوں کو موسیٰ بن عیسیٰ شدید لڑائی کے بعد ختم کیا۔سندھ میں مضری اور یمنی قبائل نے جنگ چھیڑ دی۔ ہارون نے داﺅد بن حتم کو ایک کثیر فوج کے ساتھ روانہ کیا جس نے اس شورش کو ختم کیا اور مقبوضہ علاقوں سے انہیں مار بگایا۔ موصل میں ایک سردار نے بغاوت کی ۔ اس کے خلاف ہارون نے خود لشکر کشی اور شکست دی۔خراسان میں رافع بن لیث نے بغاوت کی۔ ہارون نے خود اس کے خلاف لشکر کشی کی مگر راستے میں طوس کے مقام پروفات پا گئے۔ ہارون کے زمانے میں رومیوں کے ساتھ کئی لڑائیاں ہوئیں۔ رومیوں کی سلطنت کا پیشتر حصہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ ہارون نے رومیو ں سے لڑنے کےلئے ایک خاص فوج بنائی تھی۔ اس فوج کی کمان اس کے بیٹے قاسم کے ذمہ تھی۔ قاسم نے بری بحری راستوں سے یلغار کر کے رومیوں کے قرہ اور سنان کے قلعوں کامحاصرہ کیا۔ رومیوں نے مسلمان اسیروں کو رہا کے کے صلح کی۔ قسطنطنیہ پر اُس زمانے میں ملکہ ایرینی حکمران تھی۔ اس نے مسلمانوں کے مسلسل حملوں کی وجہ سے صلح کر کے خراج دینامنظور کیا ہوا تھا۔ رومیوں نے ملکہ ایرینی کو برطرف کر دیا۔ اورہارون کو خط لکھا کہ خراج کی رقم واپس کرو ورنہ ہم بزور وصول کر لیں گے۔ اس پر ہارون غضب ناک ہو گیا۔ اس نے حملہ کر کے ایشیائے کوچک پر حملہ کر کے کئی علاقے فتح کر لئے۔ رومیوں نے اس پر دوبارہ خراج دینے پر صلح کی۔ پھر بد عہدی کی۔ ہارون نے پھر رومیوں کو شکست دی اور ان کے قلعوں پر قبضہ کر لیا رومیوں نے پھر زیر ہو کر پچاس ہزار دینار بطور جرمانہ دے کر صلح کی۔ ہارون چاہتا تو قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کا بہترین موقع تھا مگر شایدکسی مصلحت کی بنا پر رکا رہا۔ یہ کام پھر صدیوں بعد بلا ا ٓخر خلافت عثمانیہ کے ترکوں کے ہاتھوں ہوا۔ہارون کا دور حکومت مسلمانوں کا ایک زرین دور ہے۔ اس دور میں اسلامی حکومت معاشرتی، علمی اور سیاسی اعتبار سے انتاہی عروج کو پہنچ چکی تھی۔ قوت و ثروت اور شان و شوکت کے لحاظ سے دنیا کی کوئی اور قوم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ بلکہ نیوولڈ آڈر مسلمانوںکے ہاتھوں میں تھا۔ہارون ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ طرز جہان بانی میں اسے خاص مہارت حاصل تھی۔ اس نے سلطنت کے مروجہ نظم و نسق میں بہت اصلاحات کیں اور تمام شعبوں میں کو ازسرے نو ترتیب دیا۔ بہت سے نئے شعبے قائم کیے۔ اس اصلاحات کی وجہ سے سلطنت نہایت مضبوط، ملک خوش حال، رعایا فارغ البال اور خزانہ دولت سے بھر گیا۔ ہارون کو رعایا کی اتنی فکر تھی کہ رات کے وقت بغداد کی گلیوں کوچوں میں چکر لگا کر لوگوں کے حال سے باخبر رہتا ۔ محتاجوں اور ناداروں کے وظیفے مقرر کرتا تھا۔اس نے حکمران بننے پر شریعت پر مکمل عمل کیا۔بدطینت عمال کو معزول کر کے ایماندار اور پرہیزگار افسروں کو مقرر کیا۔غیر شرعی ٹیکس ختم کئے۔ اس کے دور میں دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر باغات تھے۔ بحری بری راستوں سے تجارت ہوتی تھی۔ ہندوستان، چین افریقہ، شام، غرضکہ مشرق مغرب کے تمام ممالک سے تجارتی قافلے بغداد آتے تھے۔ دربار خلافت کی طرف سے ان کو مکمل حفاظ کی ضمانت تھی۔چوری ڈاکہ زنی کا نام و نشان نہیں تھا۔شاہراہوں اور قافلوں کی گزر گاہوں پر ہر منزل پر سرائیں بنائی گئیں تھیں۔ پانی کے جا بجا کنویں کھدوائے گئے تھے۔حوض بنوائے گئے۔خلیفہ ہارون تجارت کے فروغ کےلئے خود کوشاں رہتے تھے۔مشہور عالم اور فقیہہ قاضی ابو یوسف سے خراج کے قوانین کے متعلق ایک کتاب تحریر کرائی جو ”کتاب الخراج“ کے نام مشہور ہوئی۔ہارون اپنے دادا خلیفہ جعفر منصور کی طرح علم و فن کا بڑا دلدادہ تھا۔ علم پر بے دریخ پیسا خرچ کرتا۔ ایشیا اور یورپ کے اکثر عالم اور اہل فن بغداد میں جمع ہو گئے تھے۔ بغداد کی مساجد عوام کا مرکز تھیں۔دینی علوم کے علاوہ نجوم، فلسفہ، طب، ریاضی اور منطق کی تعلیم کاخاطر خواہ انتظام تھا۔ اس زمانے میں عالم اسلام میں کوئی شخص اس وقت تک کسی فن کا ماہر کامل تصور نہیں کیاجاتا تھا جب تک اس نے بغداد سے سند حاصل نہ کی ہو۔ جیسے ہمارے زمانے میں مغرب سے تعلیم یافتہ لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہارون نہایت دیندار اور احکام شریعت کا بڑا پابند تھا۔ اس نے نوحج کیے ۔ ایک سال جہاد کرتا ایک سال حج کیا کرتا تھا ۔ اعلیٰ پایا کا حکمران، شجاعت و بہادری میں ممتاز تھا۔ متعدد معرکوں میں فوج کی کمان کی۔ بہت فیاض تھا۔ شعراءاور فن کاروں کو بیش بہا انعامات دیتا تھا۔اس کے دور میں اس کی بیگم زبیدہ نے ایک دفعہ حج کے موقع پر محسوس کیا کہ مکہ میں پانی کی بہت قلت ہے اور حاجی اس کی وجہ پریشان ہوتے ہیں۔ اس نے دریائے دجلہ سے مکہ تک ہزاروں میل لمبی نہر زبیدہ تعمیر کروا کر پانی مکہ تک پہنچایا تھا۔ اس نہر زبیدہ کے آثار اب دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہارون کا دور مسلمانوں کا سنہری دور حکومت تھا۔ عباسیوں کے دور میں نیو ورلڈ آڈر، مسلمان حکمران ہاروان الرشید کے ہاتھوں میں تھا۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے