کالم

خوابوں کی دنیا کے مسافر مسلسل بھٹک رہے ہیں

taiwar hussain

اپنے کمرے میںکرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ ہمارے گھر میں روزانہ صفائی کرنے والی مائی نے مجھے کہا صاحب جی اک گل تے دسو میں نے جواب دیا کہ کہو مائی جی کیا کہنا چاہتی ہو۔ میرا خیال تھا شاید یہ اپنی ماہانہ اجرت میں اضافے کے بارے میں کہے گی لیکن اس کے جملوں نے مجھے پریشان کردیا کہنے لگی صاحب پاکستان کو بنے 75سال ہوگئے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ یہ ملک صرف امیروں کیلئے بنا ہے اور وہ دن بدن مزید امیر ہورہے ہیں ، ہم غریب جس طرح پہلے مزدوری کرتے تھے اسی طرح اب کررہے ہیں ، پہلے تو ہمارا گزارہ ہوجاتا ہے لیکن اب مہینے کے تیس دن پورے کرنے مشکل ہوگئے ہیں لوگوں کے دیئے ہوئے روٹی اور سالن کو کھاکھاکر ہم زندگی کے دن پورے کررہے ہیں اور ہماری اولادیں بھی صدقے اور خیرات اور لوگوں کی اترن پہن کر جوانی سے بڑھاپے کی طرف جارہی ہے ۔ آدھا ملک بھٹو صاحب نے گنوادیا اور جو باقی ہے اس میں اب زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہے ، ہمیں نہ طبی سہولتیں ملتی ہیں نہ کھانا پینا صحیح ہے نہ رہائش کیلئے اپنی چھت ہے ، کرائے کے ایک بوسیدہ کمرے میں رہتے ہیں جہاں بجلی بھی نہیں پینے کا پانی بھی دور سے جاکر لینا پڑتا ہے پاکستان کب ہمارا بنے گا ۔جہاں ہمارے جیسے لوگوں کو زندگی گزارنی آسان ہوگئی ، میں جواب دیئے بغیر کمرے سے اٹھ کر باہر لان میں آگیا وہ یہ سب باتیں ٹیٹھ پنجابی میں کررہی تھی ۔ حالات سے گھبراکر شاید اس کا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ میں سوچ میںگم ہوگیا کیونکہ سچ سننے کا مجھ میں حوصلہ نہیں ۔ ہم ایک کرب ناک صورتحال سے گزررہے ہیں ، ہم خوابوں میں رہنے والے لوگ ہیں ، پہلے بھی ہم ایک خواب کی پیداوار ہیں جس کی تعبیر ابھی تک تلاش کررہے ہیں۔ ہم ایک غریب قوم ہیں جس کی معیشت کبھی بہتر نہیں ہوسکی جسکا بیرون دنیا میں نہ تو وقار ہے اور نہ ہی اعتبار ، ملک غریب ہے لیکن اکثریت امیر لوگوں کی ہے بڑے بڑے گھر بازاروں میںخرید ، فروخت کی بھیڑ بڑی بڑی گاڑیاں کہ راہ چلتا دشوار مہنگائی حد سے زیادہ لیکن خریداری بھی حد سے زیادہ عجیب عالم ہے ، ہم وہ قوم ہیں جنہیں ہدایات طاقتور ملکوں سے ملتی ہے ، اپنی ضروریات پور ے کرنے کیلئے قرضے باہر سے لینا پڑتے ہیں ، ان قرضوں کو لوٹتا کوئی اور ہے اسے واپس کرنے کیلئے عوام ذمے دار ہیں ، غریب دن بدن اور غریب ہوتا جارہا ہے کہ دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہورہا ہے اور پر تعیش گھروں کی تعمیر کرنے والے آئے دن نئی نئی آفرز اخبارات میں چھپواتے ہیں ، آفر کرنے والے بھی ہیں اور پرتعیش گھروں کو خرید کر تزئین و آرائش کے بعد ان میں رہنے والے بھی موجود ہیں۔ انتخابات اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے اسی نظام سے نکل کر با اختیار بنتے ہیں کروڑوں روپیہ صرف کرتے ہیں اور اربوں روپیہ کماتے ہیں ان کی اپنی حالت بہتر سے بہترین ہوتی جاتی ہے لیکن ان کی مٹھی بھر لوگوں کو با اختیار بنانے والے اسی غربت کی چکی میں پستے رہتے ہیں ، ان کا اگر عوام احتساب کرنا چاہئیں تو یہ بغاوت اور جرم بن جاتا ہے ۔ با اختیار لوگوں کی زبان مستقبل روشن دکھائی ہے بیانات میں ”گا۔گے اور گی کا استعمال بہت ہوتا ہے ،خود پسندی پسندیدہ عمل ہے آئینہ روز دیکھا جاتا ہے لیکن خول اتنے چڑھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اصل چہرہ غائب ہوتا ہے با اختیار وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں ملاوٹ ہر جگہ کھانے میں پینے میں سوچنے میں عمل میں عبادت میں ریاضت میں دعا میں دوا میں سیاست میں ، صحافت میں تعلیم میں ، زندگی اور معاشرے کا ہر پہلو ملاوٹ کا شکار ہے ، جس سے کوئی فائدہ نہیں ، اس سے کوئی تعلق نہیں ، ثقافت کے نام پر بے حیائی نے اپنا اعلیٰ مقام بنالیا ہے ، ہم اس وقت احسان فراموش قوم بن چکے ہیں ، اپنے اسلاف کی محنتوں کو برباد کرنے والی قوم ہیں جس مقصد کےلئے قربانیاں دے کر ملک معرض وجود میں آیا ہے وہ مقاصد ذاتی خواہشات کی تکمیل کرنے میں گزررہا ہے ، مقصد کبھی کا فوت ہوچکا ، قائدین کی بہتات ہے ، قیادت کا فقدان ہے ، لیڈر اتنی تعداد میںہیں کہ قوم اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہی ہے، سب لیڈروں کو زعم آگہی ہے ہر چرب زبان سیاست دان ہے ، سیاست اور جمہوریت کے فلسفے جاہل اور غریب عوام کو سمجھائے جاتے ہیں ، سہانے خوابی دکھائے جاتے ہیں ، مستقبل سنہرا ہوگا حال کو بہتر بنانے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔خوابوں کی دنیا کے مسافر مسلسل بھٹک رہے ہیں۔ خواب دکھانے والے خود سنہری تعبیروں محو ہیں،ہر آنے والے دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے ، غریب بخیئے ادھیڑ ادھیڑ کرسی رہا ہے ، پیوند پر پیوند لگے چلے جارہے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ، جھوٹی تسلیاں جھوٹے وعدے جھوٹی سیاست جھوٹے راہبر اپنی الگ ریاست لینے کے بعد کیا ہم اسے ایک آڈیل اسٹیٹ بناسکے ہیں، دن بدن ملک کے حالات پریشان کن ہوتے جارہے ہیں ، اقتدار کے بھوکے اسکی آڑ میں اپنی آنے والے نسلوں کی بھوک کو بھی مٹاکر جاتے ہیں ، کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جس کا حال بدحال ہو وہ مستقبل کو کیسے روشن کرسکتا ہے ، آج کی ضرورت آج ہی پورا ہونا ضروری ہوتا ہے ، وعدے وعید پر زندگی نہیںگزرتی ، حصار وقت کو کیا توڑا جاسکتا ہے یا پھر اس میں پابند رہنے کی مجبوری ہے ۔ کیا مجبوریوں کے حصار میں ہم رکن رکھ دیئے گئے ہیں ۔ ہم تو تعمیر و تخریب میں مصروف ہیں ، یہ عذاب کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ،نام نہاد ، مہذب معاشرے میں غیر مہذب واقعات کی بھرمار ہو تو عذاب آنے کو مچل رہا ہوتا ہے ، ہم ایک دوسرے کے حوالے ہوچکے ہیں ایک طبقہ مانگنے والا اور ایک دینے والا بنا ہوا ہے یہ طبقہ دینے سے گریزاں ہے کیونکہ ان کی اپنی تجوریاں بھرنے کا نام نہیں لے رہیں ، عوام بھکاری اور اب پیشہ ور بھکاری بن چکے ہیں ، ملک مصائب کے نام پر بین الاقوامی خیرات ایک طبقے کی جھولی میں گرے گی ۔ وہ اور ان کی نسلیں حسب معمول کیا سے کیا ہوجائیں گی اور غریب ایسی کیفیت میں دم توڑدے گا ۔ 75سالوں میں ملک کے قرضے ماشاءاللہ غریب کے برے دنوں کی طرح بڑھتے چلے گئے ، نہ معیشت بہتر ہوئی اور نہ معاش راہنماو¿ں کی بے نیازی قابل غور ہے ۔ سیاست ایک سود مند کاروبار ہے جو پیسہ لگاکر آئے گا وہ ہر طرح اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کی انویسٹمنٹ معہ سود واپس ہوجائے ، عوام کا مفاد ان کی بہتری ،انکی نسلوں کی تعمیر وترقی خوشحالی وقت کا ضیاءہے ۔ اپنا مطلب نکال کر عوام سے قربت سٹیٹس کے منافی ہے ۔ موجودہ حالات کے بھنور سے ملک نکل ہی جائے گا کیا ملک کو اس سطح پر لانے والوںکو احساس ہوگا کہ وہ گدھوں کی طرح ملک کے وسائل کو نوچنا چھوڑدیں ، عوام کی فلاح ،بہبود کیلئے بھی سوچیں ، خالی بیانات نہیں بلکہ عملی طور پر خوشحالی کا زور لانے کی کوشش کریں ۔ خلوص صداقت دیانت عمل دعا اور دوا راہنماو¿ں میںہونا چاہئیں،بے سمت رہ کر کامیابی نہیں ہوسکتی ۔ اب صاحب ثروت لوگوں کو ملک اور عوام کیلئے قربانیاں دینا چاہئیں ، عوام اب بہت با شعور ہوچکے ہیں ، چوٹیں کھاکھا کر وہ ہوشیار ہوچکے ہیں ، اچھے برے کی تمیز واضح ہو چکی ، اب غاصبوں کا دور زیادہ دیر نہیں چلے گا جو مقتدر طبقے کی ہمیشہ باندی بنے رہے ہیں ۔ آپ انکا رخ عوام کی طرف موڑدیا جائے تاکہ ان کی برسوں کی قید با مشقت ختم ہونے کو آئے ورنہ مردہ بات کے نعرے گونجنے میں دیر نہیں لگتی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri