پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہاں بے شمار مسائل ہیں اور زیادہ تر عوام کے اپنے پیدا کردہ ہیں ،حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کی کوئی صورت نہیں نکلتی ۔اب ایک بار پھر الیکشن 2024 کی تیاریاں ہیں۔جس میں عوام کو بیوقوف بنانا سیاسی سودا گروں کیلئے تفریح طبع کی طرح بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا ہے اس کیلئے انہیں کسی منصوبہ بندی کی بھی ضرورت نہیں ”یہ بازو مر ے آزمائے ہوئے ہیں“ کے مصداق ادھر انتخابات کا نقارہ بجا ادھر وہ میدان سیاست میں کود پڑے ،عوام بھی ہمہ وقت شوگر کوٹڈ گولیاں پھانکنے کیلئے تیارہیں ،سوچنے کی بات ہے کہ جب ہر دفعہ عوام طفل تسلیوں ،جھوٹے دلاسوں،اور ”لارے لپوں“پر ہی پر مان جاتے ہیں تو سچ کی کڑوی گولی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ عوام اگرکبھی شعور کا مظاہرہ بھی کریں تو "صاحبان عقل”بزور قوت سیاسی انجینئر نگ کا ٹول یوں استعمال کرتے ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب اورعقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، کچھ ایسا نقشہ کھینچا جاتاہے کہ بھوک سے تنگ خواہشوں کے غلام انہی کٹھ پتلیوں کی کاسہ لیسی کو زندگی کا مقصداور ایمان جانتے ہیں اور اسی میں اپنی نجات تلاشِ کرتے ہیں ،یوں تو عوام کی بڑی تعداد ہمیشہ سے کسی نجات دہندہ کی منتظر ہے مگر کسی نا آشنا کو راستہ دینے کو ہر گز تیار نہیں، وہ صرف اپنے تراشے ہوئے بتوں کو ہی پوجنے میں راحت اور سہولت جانتے ہیں بھول چوک سے اگر درد دل رکھنے والا سامنے آ بھی جائے تو اس کو جگہ دینے کو تیار نہیں ،ہم آزادی کی پلاٹینم جوبلی منا چکے۔ ہم نے ناانصافی ،اقربا پروری ،ظلم و جبر اور دبا میں آکر فیصلے کرنےوالوں کی داستانیں رقم ہوتے دیکھیں، ہم نے آمر جنرل ضیا الحق کا حشر اور باقیات بھی دیکھیں، ہم نے معذور غلام محمد کو بھی تخت نشین دیکھا، ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی مقبولیت کی انتہاں کو چھولینے کے باوجود قبولیت نہ ملنے پر تختہ دار پر لٹکتے دیکھا، ہم نے امیر المومنین بننے اور بنانے والوں کو بھی دیکھا، ہم نے نیا پاکستان بنانے والوں کا جھوٹا دعوی اور انکے تکبر کا انجام بھی دیکھا۔ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں، دیکھیں گے اور دیکھتے رہیں گے، 76 برسوں میں کچھ بدلا نہیں اور نہ ہی بدلے گا، ہم خواہشوں کے دائروں میں گھوم رہے ہیں گھومتے گھومتے تھک گئے مگرمنزل کا پتہ نہیں، ہم پر مسلط رہنما کٹھ پتلیاں ہیں اورہم سب تماشائی ہیں ، ہم تماشا دیکھ سکتے ہیں، کر سکتے ہیں اور رائیٹر نے جو کردار دیا اسی پر عمل کرنے کے پابند ہیں، ہمیں کردار سے باہر جانے کی اجازتِ نہیں کوئی کوشش بھی کرے تو اس کا سر کچل دیا جاتا ہے ،اقتدار کی خواہش کیلئے دوڑتے سب سیاستدان اپنے اپنے مخالفوں پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں ۔ ہر سیاستدان دوسرے سے خود کو افضل ترین سمجھ رہا ہے ، وہ اب بھی عوام کو بیوقوف جانتے ہیں ۔عوام کو پرکھنے کا معیار ان کا اپنا ہے جس پر کبھی تو انکی غلط فہمی دور ہوگی ۔کبھی عوام کسی وقت شعور سے کام لے کر ساری سیاسی بساط ہی لپیٹ دیں گے ؟سیاستدانوں کو عوام کے غیض غضب کا شائد اندازہ نہیں ، عوام کی مثال اس چنگاری کی طرح ہے جو راکھ تلے دبی ہوتی ہے اور ذرا ہلانے پر شعلے بھڑک اٹھتے ہیں ان حالات میں منزل کی طرف بڑھنے کیلئے عوام کے ذہنوں پر جنگ کے شعلے بھڑکنے سے پہلے ہی سوچنا ہوگا ،بلکہ کچھ کرنا پڑے گا ۔سیاستدانوں، مقتدر حلقوں اور ریاست کے چاروں ستونوں کو اپنے کردار وعمل پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا کہ ہم موجودہ بحرانوں سے کامیابی سے باہر نکل پائیں اسوقت ہم ریاست اور عوام سمیت ہر سطح پر تضادات مصلحتوں اور دہرے معیارات کا شکار ہیں ہمیں معاملہ فہمی ،دور اندیشی ،حق گوئی ، بے باکی کےساتھ استحقاقی معاشرے کو عادلانہ معاشرے میں بدلنا ہو گا اور اس کیلئے انقلاب لانا ہو گا۔ انقلاب فکر اور سوچ میں تبدیلی لانے کا نام ہے، انقلاب ناکام ہو جائے تو یہ عمل بغاوت بن جاتا ہے ، انقلاب لانے والے کو انقلابی اور ناکام رہنے والے کو باغی کا لقب ملتا ہے۔ ہدف دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے، انقلاب پر امن بھی ہوتا ہے ،خونی بھی رجعت پسندوں کا انقلاب ترقی پسندوں کی بیخ کنی اور ترقی پسندوں کےلئے رجعت پسندی کے خاتمہ کا نام ہے ۔انقلاب کی بنیاد طاقت کے بجائے فکر ہو تو چورقطب ابدال اور عیبوں میں ڈوبا ہوا مومن اور وحشی انسان بن جاتا ہے، باغی کے جرم پر ناقابل معافی سزا موت کی صورت ہے، ورنہ انعام میں تخت باغی موت سے نہیں ڈرتا سولی پر چڑھ جاتا ہے ، خدائی نظام کا باغی ہے تو کوئی نظریات و روایات کا، تو کوئی سماج کا انقلابی جوشیلا جذباتی زیادہ پرعزم ہوتا ہے، وقت اور طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ کون باغی اور کون انقلابی ہے ،انقلاب قربانی مانگتا ہے تن من دھن کی محبتوں خواہشوں آرزوں کی، قربانی مانگتا ہے ، انقلاب کامیاب ہو جائے تو ہر طرف خوشحالی اور عادلانہ حکمرانی کا نقارہ بچتاہے مردہ چہرے کھل اٹھتے ہیں ،حقدار کو حق ملتا ہے ،ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے، انقلاب زیادہ لوگوں کو کو خوشیاں اور کم کو دکھ دیتا ہے وقت اور طریقہ درست نہ ہو تو انقلاب بغاوت کہلاتاہے،جہاں منصوبہ بندی ہو زمین زرخیز اور حالات سازگار ہوں تو وہاںانقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انقلاب کےلئے سول سوسائٹی میڈیا عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ سب کو ساتھ دینا ہوگا ،سب ساتھ دیں گے یہ معاملہ ملکی سلامتی اور پسے ہوئے عوام سے محبت کا بھی ہے ،ہمیں پاکستان کو عظیم سلطنت بنانے کا فیصلہ کرنا ہے اور اس کیلئے ایک سچے ،باصلاحیت ،محب وطن انقلابی کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭٭٭