کالم

خوداحتسابی کی ضرورت

نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر معاشی حالات کی جو تصویر کشی کر رہی ہیںوہ اقتدار کے سٹیک ہولڈرز اور عوام دونوں سے ڈھکی چھپی نہیں -پاکستان اس وقت تاریخ کے بد ترین اقتصادی’ معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور ان بحرانوں میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے-کسی بھی ملک کی معیشت کا مثبت سمت میں ہونے کیلئے ملکی کرنسی کی قدر میں استحکام، زرِمبادلہ کے ذخائر، درآمدات و برآمدات میں توازن اور جاری کھاتے)کرنٹ اکاﺅنٹ(کا سرپلس میں ہونا ضروری ہے – معاشی اصطلاح میں کرنٹ اکاﺅنٹ یا جاری کھاتہ بنیادی طور پر کسی ملک کی آمدن اور اخراجات میں تفاوت کا نام ہے، اگر یہ فرق مثبت ہو یعنی آمدن زیادہ اور اخراجات کم ہوں تو یہ کرنٹ اکاونٹ سرپلس جبکہ آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو یہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ کہلاتا ہے۔ عام فہم زبان میں یہ کہ اگرکوئی ملک اپنی مصنوعات برآمد کرنے سے زیادہ غیرملکی سامان درآمد کرتا ہے تو اس کا تجارتی خسارہ زیادہ ہو گا۔ بدقسمتی سے پاکستانی معیشت ایسے کسی معاشی اشاریئے کے مثبت ہونے کا عندیہ نہیں دے رہی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کوئی استحکام ہے، نہ ہماری درآمدات اور برآمدات میں کوئی توازن موجود ہے اور نہ ہی ہمارا کرنٹ اکاﺅنٹ سرپلس میں ہے- معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کی دعویدار پی ڈی ایم حکومت مالی سال2023کے دوران7.7فیصد یعنی65.2کھرب روپے کا بڑا مالیاتی خسارہ پیچھے چھوڑ کر گئی ہے جبکہ رواں مالی سال کا بجٹ منظور کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے مالیاتی خسارہ سات فیصد رہنے کا دعوی کیا گیا تھا- مالیاتی خسارے میں اس ہوشربا اضافے کی متعدد وجوہات میں وفاقی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ’ ٹیکس وصولی میں کمی اور حکومت کی قرض در قرض پر مبنی معاشی پالیسیاں زیادہ نمایاں رہیں-عالمی بنک نے رواں برس اپریل میں سابق حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوسکتا ہے بصد افسوس کہ سابق حکومت اس پر انتباہ پر توجہ دینے کی بجائے آمدن اور اخراجات میں موجود فرق کو پورا کرنے کے لئے محض قرض در قرض کی پالیسی پر گامزن رہی جس کی وجہ سے مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوا-پاکستان میں اب تک ہر آنے والی حکومت کی جانب سے یہ دعوی کیا جاتا رہاہے جو اپنی جگہ بجا بھی ہے کہ زیادہ قرضے لینے کی وجہ پچھلے قرضوں کی سود سمیت واپسی ہے۔ ہماری آمدنی کا 60سے 70فیصد سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت ان کی مرضی کے بغیر عوام کو معمولی سا ریلیف بھی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں-بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی شرائط پر ٹیکسوں کی بھرمار ‘ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل ہوشربا اضافے کے باعث مشکلات کا شکار عوام زندہ درگور ہوچکے ہیں اور ان کی مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تاحال جاری وساری ہے- ایک جانب عوام بجلی کے بلوں کو لے کر احتجاج کر رہے ہیں تو دوسری جانب روپے کی قدر میں گروٹ کے ساتھ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کے خطرات منڈ لا رہے ہیں جبکہ نگران حکومت واضح طور پر ان حالات میں کسی قسم کی مدد سے معذوری ظاہر کرچکی ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ بل جتنے بھی آئیں ادائیگی کرنا پڑے گی- پاکستان آج اپنی تاریخ کے جس مشکل ترین مالی ومعاشی بحران کا شکار ہے اس کی بنیادیں70سال پہلے کھودنے کا آغاز ہوا اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان بنیادوں پر کھڑی کی گئی عمارت اپنے ہی بوجھ تلے لرز رہی ہے کسی بھی حکومت نے ملکی معیشت کو خود انحصاری اور حقیقی ترقی کے ماڈل پر تیار ہی نہیں کیا شروع دن سے ہی عالمی مالیاتی اداروں نے جو پالیسی دی پاکستان کے حکمرانوں نے اسے نافذ کردیا- عالمی سٹریٹجک صف بندی میں بھی جدھر امریکہ’ مغربی یورپ نے اشارہ کیا ‘ہمارے حکمران اس صف میں شامل ہوگئے-سندھ طاس معاہدہ ہو’ یامنگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کی تعمیر عالمی بنک کی مدد شامل رہی ہے-پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہماری کسی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں رہا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش کی گئی-ریاست کے سٹیک پولڈرز نے اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے مغربی کلچر کا انتخاب کیا یوں ملک میں ایک ایسا طبقہ پروان چڑھا جو ریاستی مراعات کے باعث خوش حال ہوا- ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ معاشی استحکام ہی ناقابلِ تسخیر دفاع اور موجودہ عہد میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہونے کیلئے ناگزیر ہے – سیاسی استحکام کا ہدف حاصل کئے بنا معاشی بحالی ممکن نہیں- پاکستان میں اقتدار کے سٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کے ٹکراﺅ کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے اور ملک میں سیاست اور معیشت دونوں زوال پذیر ہیں- سیاسی قیادت اپنے تدبر سے ترقی کی بنیادیں بھرتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ مسلسل انتشار کو بڑھا دینے میں مصروف رہی گزشتہ چند سالوں کے دوران انتشار کی سیاست کو اس تیزی کے ساتھ فروغ دیا گیا ہے کہ آج اس کے نتیجے میں ملک اپنے بد ترین معاشی اور سماجی حالات سے گزر رہا ہے – مہنگائی’ معاشی بد حالی’مستقبل سے مایوسی اور بے یقینی کی فضا عوام کی نفسیات پر تباہ کن حملے کر رہی ہے-ملک وقوم کو مزید ایسے حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا-ہمارے سیاسی قائدین کو خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے اگر وہ یہ احساس پیدا کرلیں کہ اس ملک ہی سے ان کی شناخت ہے-باہمی جھگڑوں اور سرپھٹول سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا-بہتر یہی ہے کہ تمام سیاست دان اپنی ذمہ داریوں کا احساس وادراک کریں اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں-ملک میں امن وامان فضا قائم ہوگی تو معیشت کو بھی استحکام ملے گا اور قرضوں کے عمل سے باہر آکر دنیا کی اقوام میں باوقار قوم کی حیثیت سے خود کو منوا بھی سکیں گے- پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اہم سٹیک ہولڈرز پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کو ترجیح اور سیاست کو مستحکم ہونے دیں اسی میں ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے