کالم

خودکشی کے علاوہ دستیاب راستے

گزشتہ سے پیوستہ
وجہ یہ ہے کہ جو بائیڈن سے جس تدبر، جس حکمت اور انسانیت کے حوالے سے جس غیرت کی توقع تھی، وہ ان کے کسی عمل، کسی پالیسی یا کسی حرکت سے سامنے نہیں آئی۔امریکی انتظامیہ کی آنکھوں کے مخفی اشاروں سے اپنی ملکی پالیسیاں بنانے والے عرب ممالک بھی سکتے کے عالم میں ہیں۔صرف دنیا کے آزاد انسان اکیسویں صدی میں فلسطینیوں کی صیہونیوں کے ہاتھوں نسل کشی پر معترض اور حالت احتجاج میں ہیں۔جتنے بڑے مظاہرے دنیا کے غیر مسلم شہروں میں ہوئے ہیں، کسی ایک مسلم ملک کے کسی شہر میں ہونے والے احتجاج میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔گویا ہم مذہب ہونے سے زیادہ اہمیت انسان ہونے کی ہے۔اسرائیلی سفاکیت پر عالمی ردعمل نے ثابت کر دکھایا ہے کہ؛ انسانوں کو جوڑنے اور انسانی احساس کو فروغ دینے میں مذاہب سے زیادہ انسانیت کردار ادا کرتی اور کر سکتی ہے۔امریکی ایما اور ڈیزائن پر بیسویں صدی سے برطانیہ نے عالم عرب کے غلام بادشاہوں کے ذریعے مذہب کو افتراق اور انتشار کا عنوان بنا کر رکھ دیا تھا،اور اپنی اس حماقت کے عوض اسلام جیسے پرامن اور ہر ایک کی سلامتی چاہنے والے مذہب پر ”دہشت گردی” تک کا الزام لگوا لیا۔شاید اسی لیے اقبال کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ؛
حرم رُسوا ہُوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے
اب عرب ملوک و سلاطین تو اسرائیل کی قیادت و سیادت تسلیم کیے بیٹھے خود کو اور اپنے بچھڑے ہوئے معاشروں کو جدید بنانے میں مشغول ہیں،اور منتظر ہیں کہ امریکہ کی تائید و حمایت کے ساتھ اسرائیل اپنے پا¶ں میں چبھا کانٹا اچھی طرح سے نکال لے۔اب ایسی صورت، کوشش اور خواہش پر جو بائیڈن، رشی سوناک اور عرب ملوک و سلاطین کے پاس عزت و آبرو کا صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے،اور وہ یہ کہ سبھی اپنے اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کر لیں ۔ امریکی صدر جو بائیڈن پر اپنے سسٹم کے اندر سے بھی دبا¶ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے غیر مختتم التفات کو سمیٹ کر سختی سے کام لیں۔جنگ بند کروائیں، غزہ میں ہمہ قسم انسانی امداد کی فراہمی کو ممکن بنائیں۔لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ امریکیوں کو پنجہ یہود سے آزاد کرانا اتنا آسان نہیں رہا۔ دراصل مسئلہ یہودیوں کا نہیں، مذاہب کو ایک منصوبہ بندی کے تحت،ان کے اندر تخلیق کیے گئے انتہا پسندوں کے حوالے سے بدنام کرنے کی دیرینہ پالیسی کا ہے۔یہ پالیسی پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے ترتیب دی تھی۔اس پالیسی کا تجربہ انگریزوں نے ہندوستان کی لیبارٹری میں کیا اور پھر سلطنت عثمانیہ کو بھکیرنے کے عمل میں اسی حکمت عملی سے کام لیا گیا تھا۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ آزاد و خودمختار جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی جدوجہد میں ترکیہ کے روایتی ملا¶ں اور خانقاہ نشینوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا،بلکہ انگریزوں کے ہوائی جہازوں کے ذریعے مصطفی کمال پاشا کے خلاف فتاوی تکفیر بھی شہروں پر گرائے جاتے تھے۔یہی وہ وقت تھا جب سلطنت عثمانیہ کے عرب گورنرز نے لاہور کے تربیت یافتہ لارنس آف عریبیہ نامی جوکر کی مساعی سے ترکوں سے غداری کی اور انعام کے طور پر ”بادشاہ” قرار پائے۔اب اس پس منظر کے ساتھ ان عرب ملوک و سلاطین سے کیا توقع کی جا سکتی ہے،سوائے رضاکارانہ خود کشی کے۔جہاں تک فساد کی جڑ امریکہ کا تعلق ہے تو حماس کے حملے کے بعد صدر بائیڈن نے فوری طور پر پہلے سے تیار شدہ انتہائی جذباتی اور لرزاں تقریر کے ساتھ ہی اسرائیل کی جنگی بے راہ روی کا آغاز ہو گیا تھا۔اگر اس وقت بزرگ صدر اپنے اعصاب پر قابو رکھتا اور سوچے سمجھے بغیر عقل اور توازن سے عاری تقریر نہ کرتا،اور اگر برطانوی وزیراعظم رشی سوناک اسلحہ بردار جہاز پر سامان کے ساتھ کھڑے ہو کر تل ابیب نہ پہنچتا،تو اسرائیل اپنے جنگی جرائم میں اتنا تجاوز ہرگزز ہرگز نہ کر پاتا۔لیکن کیا کیا جائے،اب ان جنگی جرائم کے مجرموں کے پاس بجز خودکشی،کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ستم ظریف کا اندازہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے چہرے پر اسے پریشانی اور خفت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔اس کا سنجیدہ چہرہ متفکر دکھائی دیتا ہے۔شاید وہ انسان کشی کی اس شرمناک اور ہولناک مہم کا ساتھ نہ دے پائے،اور احتجاجاً مستعفی ہو کر جو بائیڈن کو لرزنے کےلئے اکیلا چھوڑ دے۔میں نے اسے سمجھایا ہے کہ امریکیوں کے بارے میں خود امریکی بھی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتے، یہ بات درست ہے کہ امریکی رائے عامہ نے اس بار بڑی شدت سے امریکی حکومت کے موقف اور اسرائیلی جنگی جرائم میں جو بائیڈن انتظامیہ کے جرائم پر اپنے طریقہ کار کے مطابق سخت احتجاج بھی کیا ہے۔وقت قریب ہے کہ صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ امریکی رائے عامہ کی طرف سے سرعام تذلیل اور ملامت کا نشانہ بننے لگے، ہاں مگر؛ اگر جو بائیڈن ٹی وی پر خطاب کر کے اپنی قوم اور دنیا سے اپنی اسرائیل پرستی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں معاونت پر معافی طلب کر کے مستعفی ہو جائے۔دوسرا راستہ سیاسی خود کشی کا ہے، یہ وہی راستہ ہے جس پر امریکی انتظامیہ اپنے نادان صدر کے ساتھ پہلے ہی سے چل رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے