حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا ” ترجمعہ : حُسینؑ مجھ سے ہے اور میںحُسین ؑسے ہوں ۔اُس وقت صحابہ کرام نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ آپ نے ایسا کیوںکہا کہ میں حُسین ؑ سے ہوں ۔یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ حُسین ؑ آپ کے نواسہ ہیں اور وہ آپ سے ہیں مگر میں حُسین ؑ سے ہوں سے کیا مُراد ہے۔ مگرجب 1 6 ہجری میں نواسہ رسولؓ نے دین کی بقاءکے لیے کربلا میں اپنی اورا پنے گھرانے کی قربانی دی تو یہ بات سمجھ آگئی کہ آپ نے یہ کیوںکہاتھا کہ میں حُسین ؑ سے ہوں کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب دین محمدی ﷺ کو کوئی اور نہیںبلکہ میرا نواسہ ہی سربلند رکھنے میںکامیاب ہوگا۔بے شک اللہ اُن سے محبت کرتاہے جو حُسینؑ سے محبت کرتے ہیں۔جب یزید کو اقتدار کی مسند پربٹھایا گیا تو اُس نے اقتدارکے نشے میں تمام دینی احکامات کی پیروی کو نظر انداز کرنے لگا۔شراب اور دیگر بُرائیوں کے نشے میں مدہوش ہونے لگا۔ وہ بطور حکمران دین محمدی ﷺ کے احکامات پر پیروی نہیں کررہا تھا ،شریعت محمدی ﷺ کو یزید نے تخت پر بیٹھنے کے بعد بھلا دیا اور رشتوںکے تقدس ،اسلامی قوانین کو اُس نے اپنے قدموں تلے روند دیا۔امام پاک پھر کیسے ایسے فاسق جابر ظالم اور نمائندہ ابلیس کی بیعت کرتے ۔آپ نے اِس کے خلاف اعلان حق کا اعلان کیا۔نواسہ رسولؓ نے یزیدیت کی بیعت نہ کرکے اُس کے غیر شرعی احکاما ت کے خلاف حق کا پرچم سربلند کیا۔مدینہ اور مکہ سے نکلتے وقت آپ کو بہت سے اصحاب اور بزرگوں نے کوفہ جانے سے منع کیا کیونکہ کوفہ والے وفادار نہیں ہیں اور ہم نے رسول ﷺ سے سُن رکھا ہے کہ آپ ظالموں کے ہاتھوں قتل ہوں گے اور لوگ خاموش رہیں گے یا اگر جاتے ہو تو خواتین کو نہ لے جائیں ۔جب بیعت سے اِنکاری پر امام عالی مقام کو کوفہ جانے سے روکا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:اے بندگان خدا کیا تم اس چیز کا مشاہد ہ نہیں کر رہے ہو کہ حق پر عمل نہیںہورہا ہے اور باطل کی مخالفت نہیں کی جارہی۔گمراہی کے اس ماحول میںضروری ہے کہ مردِ مومن حق کا طلب گار اور خُدا سے ملاقات کا متمنی ہو۔میں اِس مرحلے پر عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتا ہوں ۔ میرے لیے یزید جیسے فاسق اِنسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی بجائے موت کی آغوش ہزار درجہ بہترہے ُ۔میںشہادت کو سعادت وخوش بختی اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لیے ہلاکت و عار سمجھتا ہوں©©©“۔یہ وہ ہستی جو شریعت محمدی ﷺ کو بچانے کی جنگ میں اپنے گھر والوں و چند صحابہ کرام کے ساتھ کربلا کے میدان میںدو محرم الحرام کو پہنچے اور فرمایا بے شک میں شہادت کو سعادت اور خوش بختی ایک جابر وظالم فاسق حکمران کے خلاف سمجھوں گااور فرمایا تم یہ جان لو کہ میں اِنصار اور اِصحاب کم ہونے کے باوجود بھی حق وصداقت کےلئے جنگ کرﺅں گا۔اور پھر کربلاکی سرزمین پر دس محرم کو ایسی بے مثال قربانی اپنی اور اہل خانہ وصحابہ کرام کی دی کہ کربلا کی زمین پر اللہ کی شریعت کا پرچم بلند کرنے والے اِن بہتر جانثاروں کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا ۔یزید کی فتح عارضی تھی اور حُسین ؑ کی جیت ہمیشہ کےلئے تھی ۔یہ دوشہزادوں کی اقتدار کی جنگ نہ تھی بلکہ حق وباطل کا دُنیا کا سب سے بڑا معرکہ تھا جس میں دُنیاوی فتح یزید کو چند دِنوں کےلئے ملی مگر کربلا کے شہیدوں کو ابدی فتح کا پیغام اللہ کی طرف سے آیا کہ تمھارا نام رہتی دُنیا تک “حسین زندہ باد ہے یزید مردہ باد کی بازگشت کے ساتھ بلند ہوتا رہے گا اور آج دیکھیں تو ایسا ہی ہے ہر سال محرم عقیدت واِحترام سے منایا جاتاہے ۔امام عالی مقام واُن کے ساتھیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جاتاہے۔ فلسفہ شہادت وکربلا والوں کی یزیدیت کی جنگ نے اِسلام نے اُمت مسلمہ کو ہمیشہ کے لیے ایک واضح پیغام دے دیا کہ بھلے تعداد میں آپ مٹھی بھر کیوں نہ ہو ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ جاﺅ کربلا والوں کی طرح ۔آخری جیت تمھاری ہوگی ۔ فلسفہ حق وباطل کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی کہ حق میں ہر حال میںپیروی کرﺅ اورجابر و غاصب حکمران کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوجاﺅ۔ لاکھوں کی فوج یزیدیت کی اور 72کی جنگ میں بظاہر تو یزید نے سمجھا کہ میں جیت گیا ہوں مگر رب نے ہمیشہ کےلئے اُ س کےلئے لعنت اور جہنم کی آگ لکھ دی اور چند ماہ بعدہی اُس کے تخت و تاج کے ساتھ قانون قدرت نے کیا کیا اور پھر اُ س پر روزِقیامت تک یزیدیت مردہ باد کی پہچان کے ساتھ اُس کا نام لکھ دیا گیا ۔امام عالی مقام ؑ واِن کا گھرانہ تو جنت کے وارثوں کا گھرانہ تھا وہ خود جنت کے سردار تھے تو اِنہوں نے یہ کیوں اتنی عظیم قربانی دی ۔چھ ماہ کے علی اصغرؑ سے لے کر اپنے سترسالہ بوڑھے دوست حبیب ابن مظاہر ؓص ،جواں سال بیٹے علی اکبر ؑ ،وفادار بہادربھائی عباسؑ،اپنے بھتیجے وہونے والے داماد تیرہ سالہ شہزادہ قاسم ؑ دیگر صحابہ کرام ؓ کی اِس معرکہ حق وکُفر میں شہادت ایک لازوال قربانی ہے ۔بھو کا وپیاسہ رہ کر یہ حُسینیت کے پرچم تلے کھڑے جانثار یزیدیت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کرکھڑے رہے۔شب عاشورہ کی رات کا ایک پہر امام عالی مقام نے اپنے اِصحاب کےساتھ گزارا ۔ فرمایا کہ ”یہ لوگ میری اور میرے اہل خانہ کی جان کے دُشمن ہیں ۔میںتم سب کو جنت کی بشارت دیتاہوں ۔چراغ گُل کر رہاہوں آپکو بخوشی جانے کی اجازت دے رہاہوں۔پھر جب دُوبارہ چراغ جلایا گیا تو تما م اصحاب میںسے کوئی بھی نہ گیاتھا ۔سب فرمانے لگے ہمارے والدین ،بچے آپ پر قربان ہوں ہم کیسے آپ کو اِس وقت مشکل میں چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔روزمحشر کوآپکے نانا کو کیا جواب دیںگے۔وفا کی ایسی تصویر آپ کو کسی بھی جگہ نہیںملے گی ۔ اور پھر جب سب جان نثار شہید ہوگئے تو دس محرم خود نیزوں کی چھاﺅں میں نماز کی حالت میں سجدہ شبیری دے کر اپنی نصرت کا اعلان غاضبوں کے لیے کیا ۔ اس سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ دین محمدی ﷺ اپنے نانا کا دین بچ جائے ۔اللہ کی وحدانیت کا جو اقرار کلمہ میں کرتے ہیں اِس کو عملی طور پر جان دے کر عملی طور پر دکھایا ۔ واقعہ کرب وبلاعزم وہمت اورجرا¾ت کا درس دیتاہے ۔ استقامت وشجاعت کی انمٹ داستان جو تاابد ضو فشانی کرتی رہے گی۔ آج اگر افقار وپیام امام عالی مقام کو تمام مسلمان اُمہ مسلک کے دائروں سے باہر ہو کر اپنی زندگیوں میں شامل کرلے اور اتحاد ویگانت کے ساتھ مسلمان ایک ہوجائیں تو پھر مسلمان جہاں جہاں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں بھلے وہ کشمیر ہویا فلسطین یا کوئی اور علاقہ ہر طرف کامیابی مسلمانوںکی ہوگی ۔مسلمان آپس میںلڑنے کی بجائے اپنے دُشمن کوپہچانیں ۔جو یزید کے پیروکار ہیں اِن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں تو آخری کامیابی مسلم اُمہ کی ہی ہوگی۔
یزید تیر ا تخت وتاج دو گھڑی کا تھا
ہے آج بھی دِلوں پر حکومت حُسینؑ کی
٭٭٭٭٭
کالم
درس ِ کربلا ہے ہر وقت ِیزید سے جنگ!
- by web desk
- جولائی 29, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1243 Views
- 2 سال ago