کالم

دریاو¿ں کے بیڈ میں موجود آبادیوں کے فوری انخلاءکا حکم

riaz chu

نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے کے بعد رات گئے گنڈا سنگھ والا بارڈر کے مقام پر دریا اور تلوار پوسٹ کے فلڈ ریلیف کیمپ کے دورہ پر دریائے ستلج کے بیڈ میں موجود آبادیوں کے فوری انخلا کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے ساتھ مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ دریائے ستلج میں پانی کی آمد و اخراج سے تمام متعلقہ اداروں کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا جائےگا۔ستلج کے بیڈ میں آبادیوں میں موجود لوگوں کا انخلاءپہلی ترجیح ہے۔بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے سے ستلج کے اردگرد اضلاع کی انتظامیہ کو الرٹ کردیا ہے اور لوگوں کیساتھ مویشیوں کے انخلاءکے لئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ محسن نقوی نے جھنگ میں سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے دریائے چناب کے قریبی دیہات کا3 گھنٹے تک کھروڑہ باقر اور دیگر علاقوں میں پانی کی صورتحال کا جائزہ لیا اور زیر آب دیہات تک رسائی کے لئے متعلقہ محکمو ں اور اداروں کو ہدایات دیں اور دریا میں پانی کی صورتحال کو ہمہ وقت مانیٹر کرنے کا حکم دیا اور ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لئے دریا کے بیڈمیں موجود آبادیوں کا انخلاء جلداز جلد یقینی بنایا جائے۔ محکمہ آبپاشی،پی ڈی ایم اے،ریسکیو1122کو الرٹ کر دیا ہے۔ دریائے چناب کے بیڈ میں موجود 40 دیہات میں پانی آیا ہے اور48 ہزارافراد متاثر ہوئے۔متاثرہ افراد کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے امدادی و میڈیکل کیمپس قائم کر دیئے ہیں۔ دریا کے بیڈ کے اندر موجود آبادیوں کا انخلاء ان کے تحفظ کےلئے ضروری ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو ۔ بعض دیہات میں 3 سے 4 فٹ تک پانی موجود ہے ۔ دریائے چناب میں کھروڑہ باقر کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے ۔سیلاب کے دنوں میں حشرات الارض سانپ وغیرہ کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین اوردیگر ضروری ادویات میڈیکل کیمپس میں موجودہونی چاہئیں ۔ سیلاب زدگان کے ریلیف اوربحالی کےلئے انتظامی سطح پر بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ جھنگ کی انتظامیہ کو امدادی کارروائیاں تیز کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ڈی سی جھنگ کو سیلاب سے متاثرہ تمام دیہات تک امدادی ٹیموں کی رسائی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔سیلاب متاثرہ علاقوں میں ادویات اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔بھارت ہر سال اسی طرح ہمارے دریاو¿ں میں پانی چھوڑتا ہے۔ فی الحال پنجاب میں سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں۔ دریاو¿ں کے اندر قائم غیر قانونی آبادیوں اور تجاوزارت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ پانی کی آمد مانیٹر کی جا رہی ہے اور ہر 6گھنٹے کے بعد رپورٹ لی جا رہی ہے۔ بھارت نے ستلج میں بھی 2 لاکھ 11 ہزار کیوسک پانی چھوڑا ہے اورگنڈا سنگھ والا کے مقام پر 38 ہزار کیوسک پانی گزر نے کا امکان ہے ۔اس وقت ملک بھر میں پری مون سون بارشوں کی وجہ سے جو نقصان ہورہا ہے اس کی ذمہ داری بھی حکومت اور متعلقہ اداروں پر اس لیے ہے کہ ہر طرح کے اعداد و شمار موجود ہونے کے باوجود کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔ قدرتی آفات پر تو قابو نہیں پایا جاسکتا لیکن ان سے ہونے والے نقصان میں تو کمی لائی جاسکتی ہے، اور یہ تب ممکن ہوسکتا ہے جب حکومت اس حوالے سے سنجیدہ ہو اور متعلقہ محکمے اور ادارے قابل عمل منصوبہ بندی سے آگے بڑھیں۔ پنجاب کی نگران حکومت اس ضمن میں بہت سے اقدامات کر رہی ہے جن میںدریاو¿ں کے راستوں سے آبادیوں کا انخلاءاور سیلاب کی صورت میں امدادی کاموں اور طبی امداد کی فراہمی شامل ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ نے لاہور سمیت دیگر شہروں میں شدید بارشوں کے باعث فوری نکاسی آب کےلئے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ افسران فیلڈ میں نکلیں اورنکاسی آب کے کام کی خود نگرانی کریں۔ نشیبی علاقوں اور شاہراوں سے ترجیحی بنیادوں پر نکاسی آب کو یقینی بنایا جائے اور ضروری مشینری کے ذریعے نکاسی آب کا کام متعین وقت میں مکمل کیا جائے ۔ صوبائی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے، ریسکیو1122 اور واسا کو الرٹ رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نکاسی آب کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نگران حکومت کے بر وقت اقدامات کی بدولت بارشوں سے نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ نگران حکومت نے بارشوں کی پیش بندی کرتے ہوئے فروری سے جون تک تین مرتبہ نہروں اور نالوں کی صفائی کروائی۔ 291 ملی میٹر بارش لاہور کی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل جولائی کے مہینے میں اتنی بارش ایک دہائی پہلے ہوئی تھی۔چند گھنٹوں میں لاہور کی تمام بڑی شاہراہوں اور انڈرپاسز سے بارش کا پانی نکال دیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے