پرانے زمانہ میں کوئی آدمی اکیلا کسی جنگل میں رہتاتھا۔ایک بار بارش برسی تو وہ ایک درخت کے نیچے جا کر کھڑاہوگیااورجب تیز دھوپ پڑتی تو وہ چھاﺅں میں جاکر آرام کر لیتا ۔ کچھ عرصہ بعد اُس نے ایک چھت ڈال لی جو چار ستونوں پر کھڑی تھی لیکن تیز آندھی کے وقت جب طوفان چھت کے نیچے سے گزراتو اُس نے دیواریں بھی چھت کی طرح سے بنالیںاور ضرورت کے مطابق نیچے فرش بھی بچھالیا۔ کوئی جنگلی جانور اندر داخل نہ ہوسکے کی روک تھام کےلئے اُس نے دروازہ بنا لیا اور روشنی کےلئے روشن دان بنا لیے اورہواکےلئے کھڑکی بھی رکھ لی اور گھر سے باہر رستہ بھی بنالیا۔پہلے پہل وہ آدمی کسی تالاب یا نہر سے پانی پی لیاکرتاتھا۔ایک بار کوئی قافلہ جنگل سے گزرا،اُس میں کنواں کھودنے والے لوگ تھے۔انہوں نے راستے میں کنواں کھود دیا اور اِسی طرح قافلے گزرتے گئے ۔ کسی نے کاشتکاری سکھا دی اور کسی نے لکڑی یا لوہے کاکام ،تھوڑے ہی عرصے میں جنگل آباد ہوگیااور لوگ گوشت پکاکر کھانے لگے اور کمیونٹی نے رہن سہن کے کچھ تجربات سے سیکھ کر کچھ اُصول وضوابط بنالیے اور جنگل پوری طرح سے آباد ہوگیاتو کچھ لوگ قریب پہاڑ جاکر بسنے لگے اورکچھ میدانوں کی طرف ہجرت کرگئے اور کچھ دوردراز دریاﺅں یا سمندروں کے کنارے جابسے اورزمانے کے ساتھ ساتھ ُاصول و ضوابط بناتے رہے اور یہ بھول گئے کہ وہ سب ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔کرہ ارض کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور اطراف میںطرح طرح کی توہم پرستیوں نے جنم لے لیا۔مغرب کے ایک گروپ نے یہ دعویٰ کردیا کہ ”وائیٹ سپرئیر“ ہوتے ہیںجبکہ گندمی یاکالے رنگ کے لوگ کم تر ہی ہیں ۔ کچھ لوگوں نے یہ دعویٰ کردیاکہ ہم اعلیٰ نسل کے ہیں۔مڈل ایسٹ میں بنی اسرائیل نے کہا کہ وہ انبیاءکرام کی اولاد ہیںاور اہل عرب دوسری اقوام کو عجمی یعنی گونگا کہہ کر پکارنے لگے ،کچھ اقوام اپنے آپ کو فاتحین کی اولاد کہہ کر اعلیٰ ہونے کے دعویدار ہیںجس میں غزنوی ، غوری ، منگول،ترک اور راجپوت قبائل سرفہرست ہیں اور تو اوربعض افراد اپنے مذہب یا دھرم کو دوسرے مذہب یا دھرموں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔کچھ انسانی محنت و کاوش سے بنائے گئے نظام جیسے سیکولرازم ،سوشل ازم یاکیمونزم والے دعویٰ کرتے ہیں کہ کوئی آسمانی مذہب نہیں ہے جبکہ ہندو،مسلم ،سکھ اور عیسائی وغیرہ ہرکوئی اِن کو گمراہ اور دنیادار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ان تفریقات میں سے سب سے بڑی تفریق مذہب کی تفریق ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی ایسا مشترکہ لائحہ عمل طے کیاجائے کہ انسانیت کی فلاح وبہبود ہواوردنیامیں امن قائم ہوجائے ۔ اگرنام کا سوچاجائے توکسی نے اپنے علاقے کے نام سے مذہب کا نام رکھاہواہے جیسے ہندومت (اہل ہندکا مذہب) ،کسی نے شخصیت کے نام سے جیسے عیسائی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب)،یہودی (حضرت یوسف علیہ السلام کے بڑے بھائی)اور کسی کے مخلوق کے نام سے جیسے سنگھ (شیر) اور ستارہ پرست،آگ پرست ، درخت پرست وغیرہ کے نام رکھے ہوئے ہیں ۔ لفظ اسلام عربی کے لفظ ”مسلم “سے ماخوذ ہے جس کے معانی امن اور سلامتی کے ہیںجو بہترین پیغام ہے۔جب کوئی انسان دوسرے کو مخاطب کرتاہے توکوئی”گڈبائے“ ، کوئی نمستے یا ست سری کال وغیرہ کہتاہے لیکن السلام علیکم کا مطلب ہے”آپ پر سلامتی ہو“جوکہ ایک مکمل دعا ہے ۔اسی طرح سورہ فاتحہ ایک دعاہے جو رنگ ، نسل اور تعصب سے پاک ہے۔کسی بھی اور آسمانی یا زمینی کتاب میںاس کے مقابلے کی کوئی اور عبادت نہیں ہے۔جب سے ظہوراسلام ہواہے۔ اس کی مقبولیت میں بتدریج اضافہ ہی ہورہاہے۔ اس کے بنیادی تصورات سے کسی کوبھی اعتراض نہیں ہے۔اس کا نعرہ ہے ۔دوستی سب کے ساتھ، دشمنی کسی کے ساتھ نہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ایک مسلمان تمام آسمانی کتابوں اور صحائف انبیاءپر صدق دل سے ایمان لاتاہے اور اُس کا یہ بھی ایمان ہے کہ تمام انبیاءکرام صادق اور امین ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی مسلمان نے کسی نبی علیہ السلام یارسول علیہ السلام کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی ہے کیونکہ ان کی تربیت میں بھی یہ بات شامل ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی ۔ جب سے ظہور اسلام ہوا ہے ۔ انسانوں پر حقیقت ِقرآن روشن سے روشن تر ہوتی جا رہی ہے۔دنیامیں سب سے تیزی سے لوگ ہدایت یاب ہورہے ہیںاور مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں ۔ اب تک کی دنیاکی پچیس فیصدآبادی نے اسلام قبول کرلیاہے اور بہت سے افراد کااسلام کے بارے میں نظریہ بدل رہاہے۔یہ سب اسلام کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔