کالم

دورہ چین کثیرالجہتی ہوگا

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ ایسے موقعے پر دورہ چین کررہے ہیں جب حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری وساری ہے، اسرائیلی جنگی طیارے نہتے فلسطینوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، یہ امر قابل زکر ہے کہ انوارالحق کاکڑ نے دوٹوک انداز میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ظلم وبربریت کی مذمت کرتے ہوئے تنازعہ فلسطین کو پرامن انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی سرکاری سطح پر کہا ہے کہ اسرائیل کا فلسطینی آبادی کو نشانہ بنانا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ عالمی جنگی اصولوں کی کھلی خلاف وزری ہے، دوسری جانب اسرائیل کی وزارت خارجہ نے جمعہ 13 اکتوبر کو کہا کہ اس نے شرق اوسط کےلئے چینی ایلچی کو کال کی اور حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کی مذمت نہ کرنے پر ”گہری مایوسی” کا اظہار کیا،اسرائیلی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ”چینی سفیر سے جنوب میں حالیہ واقعات پر چینی اعلانات اور بیانات پر بھی اسرائیل نے شدید مایوسی کا اظہار کیا،مزید یہ کہ چین کی جانب سے دہشت گرد تنظیم حماس کی طرف سے معصوم شہریوں کے خلاف خوفناک قتل عام اور غزہ میں درجنوں افراد کے اغوا کی کوئی مذمت نہیں کی گی”اسرائیلی وزارت خارجہ کا جاری بیان دراصل یہ بتانے کےلئے کافی ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں چین کس طرح سے مسلم دنیا کے جذبات کی ترجمانی کررہا ہے، ریکارڈ پر ہے کہ بیجنگ برملا اس خواہش کا اظہار کرچکا کہ مشرق وسطی میں دیرپا امن کے لیے مسلہ فلسطین کا منصفانہ حل ضروری ہے، اس پس منظر میں نگران وزیر اعظم کا دورہ چین جہاں اسلام آباد اور بجینگ میں فلسطین جیسے تاریخی تنازعہ کو پرامن انداز میں حل کرنے کی کاوشوں میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے،پاک چین تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ دونوں ملکوں کی دوستی اپنے آغاز سے ہی منفرد نوعیت کی رہی، مثلا پاکستان اور چین علاقائی ہی نہیں کہ بلکہ کئی عالمی مسائل پر بھی یکساں موقف رکھتے ہیں، بجینگ نے ہمیشہ پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کی، تاریخ گواہ ہے کہ چین مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سراہتا چلا آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت نے جب بھی علاقائی یا عالمی پلیٹ فورم پر پاکستان کیخلاف پابندیوں کی قرارداد پیش کی چین نے اسے ویٹو کیا، افغانستان کے حوالے سے بھی چین نے پاکستانی کاوشوں کو آگے بڑھایا،اسلام آباد کی طرح بیجنگ کا موقف یہی رہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان نہ صرف افغان عوام کی مشکلات کا ازالہ کرے گا بلکہ خطے میں دیرپا قیام امن میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے، افغانستان کو سی پیک منصوبے میں شامل کرنے کا بھی ایک مقصد یہی ہے کہ جنگ سے تباہ حال میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو، بجینگ کو باخوبی اندازہ ہے کہ افغانستان کی معاشی حالت بہتر ہونے تک غیر یقینی صورت حال برقرار رہ سکتی ہے، بیجنگ افغانستان کے معدنی ذخائر کو بروئے کار لا کر افغانوں کی معاشی حالات بہتر بنانا کا عزم بھی رکھتا ہے، بتایا جارہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے دورہ چین میں بھی افغانستان کی تعمیر وترقی کے منصوبوں میں پاکستانی تعاون پر بھی تبادلہ خیال ہوگا، چین اس سے بھی آگاہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں بیٹھ کر نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کےلئے بھی مشکلات پیدا کررہی ہے،ذرائع کے مطابق انوارالحق کاکڑ دیرینہ دوست کو اس بارے میں بھی اعتماد میں لیں گے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں کس طرح غیر قانونی طور پر پاکستان آنےوالے افغان ملوث پائے گے، چین جانتا ہے کہ بھارت سی پیک کا مخالف ہے چنانچہ نئی دہلی ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جب وہ پاکستان کے اندر بلوچستان میں بیجنگ کے مفادات کو نقصان پہنچائے، نگران وزیر اعظم آزمودہ دوست سے اس پر بھی تبادلہ خیال کریں گے کہ کب اور کیسے نئی دہلی پاکستان مخالف تنظمیوں کے کارکنوں کو پیسہ اورتربیت فراہم کرکے صوبے میں حالات خراب کرنے میں ملوث ہے، دشمن کا دشمن دوست ہوا کرتا ہے درحقیقت بھارتی اسی فارمولہ پر عمل پیرا ہے یوں وہ ریاست پاکستان کے خلاف جائز وناجائز گلے شکوے رکھنے والے بلوچوں کو استعمال کررہا ہے، وزیر اعظم کے دورہ چین میں ان اقدامات بارے بھی تبادلہ خیال ہو گا جو پاکستان میں سی پیک منصوبوں میں کام کرنےوالے چائینز انجینئروں اور کارکنوں کو تحفظ دینے کےلئے اٹھائے گئے ، نگران وزیر اعظم کے دورہ چین میں متعدد منصوبوں پر دستخط ہونے کی خبریں ہیں، یہ پیش رفت اس بات پر مہر تصدیق ثبت کررہی کہ پاکستان میں منتخب ہو یا نگران حکومت دونوں ملکوں کے دوستانہ تعلقات بارے پیشرفت جاری وساری رہیگی، چین پاکستان دوستی کا ایک اور قابل زکر پہلو یہ ہے کہ دونوں کی افواج کے درمیان قریبی روابط ہیں، جنگی سازوسامان کے حوالے سے بیجنگ نے ہمیشہ اسلام آباد کے ساتھ تعاون کیا، چین کو باخوبی اندازہ ہے کہ بھارت کی شکل میں پاکستان کو ایسے پڑوسی ملک کا سامنا ہے جس سے اسے کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں، یوں یہ ممکن نہیں کہ پاکستان اپنی جنگی تیاریوں پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کرے،بتایا جارہا ہے کہ نگران وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کی دفاعی ضرورتوں کے سلسلے میں بھی چینی حکام سے تبادلہ خیال کیے جانے کا امکان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے