کالم

دہشت گردی ،آئی ایم ایف اور سیاست

پاکستان میں ایک دفعہ پھر دہشت گردی نے سر اٹھانا شروع کر دیاہے دہشت گرد کافی عرصے سے سرحدی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں روزانہ ہماری سرحدوں پر متعین پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کی خبریں آتی رہتی ہیں کوئٹہ میں سیلاب زدگان کی امدادی سرگرمیوں کے دوران پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر دہشت گردی کا شکار ہوا تھا جس میں پاک فوج کے کی افسران شہید ہوئے ہیں۔دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ پولیس لائن پشاور کی مسجد میں خود کش حملہ ہے جس میں سو کے قریب افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ کو لوگ ابھی نہیں بھولے تھے کہ پشاور میں دہشت گردی کا ایک اور سانحہ ہو گیا ۔ پوری قوم اس حادثہ پر سوگوار ہے۔ سینیٹ اور کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیرنے دہشت گردوں کو سخت پیغام بھیجا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ کون بنا رہاہے کیا اس میں افغانستان ملوث ہے یا بھارت؟ جب تک ہم افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی نہیں بدلیں گے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا دہائیوں سے ہم افغانستان کو خوراک اور روزگار فراہم کر رہے ہیں اس کے باوجود افغان کے عوام اور حکومت پاکستان کے خلاف ہی بات کرتے ہیں تحریک طالبان پاکستان بھی اپنی سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ حکومت نے ڈالر پر سے کیپ اٹھاتے ہوئے اسے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ ڈالر پر کیپ ہٹانے سے اس کی قیمتوں کو ایک بار پھر پر لگ گئے ہیں ۔سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی حکومتی اقدام کو سراہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نویں جائزے کے لیے پاکستان پہنچ چکی ہے اور اسحاق ڈار کی سربراہی میں وزارت خزانہ کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں ۔ امیدہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے گا اور فنڈ اگلی قسط جاری کر دے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور ایشین ترقیاتی بینک کی امداد بھی بحال ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف چھ سو ارب کے ٹیکسوں سمیت کی سخت اقدامات پر زور دے رہا ہے مانیٹری فنڈ کے کہنے پر حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور مبینہ طور پر مزید اضافہ متوقع ہے اور پٹرول ڈھائی سو روپے لیٹر مل رہا ہے۔ مہنگائی کا سیلاب امڈ آیا ہے عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ تھے اب ان کی زندگی مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔اس سے آٹا دالیں کوکنگ آئل سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے ٹرانسپورٹروں نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ عوام جو پہلے ہی گزشتہ آٹھ ماہ سے مہنگائی کا عذاب جھیل رہے تھے۔ مہنگائی کی نئی لہر نے انہیں مزید بے بس کر دیا ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اب عام آدمی ان پرانی باتوں پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ سب کیا دھرا عمران خان کاہے لوگ ان باتوں کو بھی نہیں مانیں گے کہ ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دے کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ یہ باتیں اب بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ اب وہ مرحلہ قریب آتا جا رہاہے جب ملک میں اشیا کی کمی ہونا شروع ہو جائے گی ۔ اور حقیقت میں سری لنکا جیسی صورت حال ہو تی جا رہی ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں ۔ کے پی کے میں اعظم خان اور پنجاب میں محسن نقوی نے نگران وزراے اعلیٰ کا حلف اٹھا لیاہے۔ممبران قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے مرکز میں پی ٹی آئی کا صفایا کر دیا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں ہمارے حکمران مغربی ممالک کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن جب ہم ان مغربی ممالک کے حکمرانوں کے عمل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لئے کتنے مخلص ہیں۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا نے انتخابات سے قبل استعفے کا اعلان کر دیا اور برطانیہ کی وزیراعظم لزٹرس سے جب معاشی حالات کنٹرول نہیں ہوئے تو وہ مستعفی ہو جاتی ہیں۔بھارت نژاد برطانوی وزیراعظم کو ڈرایونگ کے دوران بیلٹ نہ باندھنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اس وقت دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے پولیس اور فوج کے جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں حزب اختلاف پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ مانگ رہی ہے۔ کے پی کے کے نگرانی وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم جنازے اٹھا رہے ہیں اور ان کو الیکشن کہ پڑی ہوئی ہے۔لیکن مرکزی حکومت الیکشن کی طرف آتی ہو ئی نظر نہیں آ رہی ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔ سیاست کوایک طرف رکھ کر ملکی مفاد میں اجتماعی سوچ اپنانی ہوگی۔ اپوزیشن کے سیاسی ورکرز کی پکڑ دھکڑ سے عوام میں کوئی اچھا پیغام نہیں جا رہا۔جب تک حزب اختلاف اور برسراقتدار جماعتیں قومی جذبے کے ساتھ ملک کی بہتری کے لئے نہیں سوچیں گی یہ ملک ترقی نہیں کر سکتااور نہ عام آدمی کے حالات سدھر سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے