کالم

دیو سائی کا سحر اور پلاسٹک کی سڑکیں

rohail akbar

پنجاب اور سندھ میں شدید گرمی سے اکتائے ہوئے لوگ گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کررہے ہیں یہ خوبصورت علاقے پاکستان کا حسن ہیں سیاحت نے نہ صرف ان علاقوں کے لوگوں کو خوشحال کردیا ہے بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی یہاں آکر روزگار کما رہے ہیں اس موسم میں جتنا رش کشمیر میں سیاحوں کا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر لوگ گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں یہاں جگہ جگہ قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں خاص کر دیو سائی جو دنیا کا بلند تر ین دوسرامیدانی علاقہ ہے یہاں بادل پہاڑوں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے سیاحوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں خاص کر شیوسر جھیل دیکھنے کے لیے تو پوری دنیا سے لوگ یہاں پہنچتے ہیں دیو سائی نیشنل پارک اور محکمہ وائلڈ لائف کے محنتی لوگوں کی وجہ سے اس علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوا ہے میں بھی چوہدری طارق جٹھول ایڈوکیٹ اور ماجد سندھو کے ساتھ گذشتہ روز شیوسر جھیل پہنچا تو وہاں پر احمد نے سیاحوں کی خدمت کے لیے کیمپ لگا رکھے ہیں اورجہاں جھیل کے نظارے تو ہیں ہی ساتھ میں موسم بھی عاشقانہ ہی رہتا ہے کبھی بارش شروع ہو جاتی ہے تو کبھی بادلوں میں سے سورج پوری آب وتاب سے چمکنا شروع ہوجاتا ہے تاحد نگاہ تک پھیلی ہوئی جھیل کا حسن چاندنی راتوں میں دیکھنے والا ہوتا ہے اس جھیل پر رات گذارنے والے ساری رات آگ جلا کر قدرت کے اس حسن کا نظارہ کرتے رہتے ہیں اور کھانے پینے کا ماحول بلکل لاہور جیسا بلکہ ریٹ کسی بھی اچھے ہوٹل سے بھی آدھے یہاں کیمپ میں رات گذارنا بھی یاد گار بن جاتا ہے میں نے اس جھیل کنارے بہت سے لوگ دیکھے جو پہلی مرتبہ کیمپنگ کا مزاہ لے رہے تھے شیوسر جھیل کی بات کریں تو یہ ایک الپائن جھیل ہے جو دیوسائی نیشنل پارک گلگت بلتستان پاکستان کے مغربی سرے پر واقع ہے یہ جھیل 4,142 میٹر (13,589 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے جھیل تک پہنچنے کےلئے دو راستوں سے رسائی ممکن ہے ایک استور کے راستے اور دوسرا سکردو کے راستے اس علاقے دیو سائی کامرکزی استور شہر جہاں سے کچی ،پکی اور ٹوٹی پھوٹی سڑک سے چلم تک پہنچنے کے لیے تقریباً چار گھنٹے لگتے ہیںجو میدانی علاقوں سے متصل آخری رہائشی علاقہ ہے شیوسر جھیل تک پہنچنے کا دوسرا راستہ سکردو سے آتا ہے جو جیپ کے ذریعے چند گھنٹوں میں طے کیا جا سکتا ہے اگر ٹریک کیا جائے تو اس میں دو دن کا وقت لگ سکتا ہے اس راستے سے صرف جیپ پر ہی سفر ممکن ہے جبکہ استور سے دیوسائی تک عام کار بھی بڑی آسانی سے پہنچ جاتی ہے سکردو گورنر جی بی سید مہدی شاہ کا علاقہ ہے دیکھتے ہیں کہ وہ سکردو سے دیو سائی تک جو سڑک بننے والی ہے وہ کب تک بنواتے ہیں ویسے تو انہوں نے اپنے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں اور اب تو خوش قسمتی سے گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری بھی محی الدین وانی کمال کے آدمی ہے جس کام کی تھان لیں پھر اسے مکمل کیے بغیر نہیں چھوڑتے اور خیر سے اب تو گلگت بلتستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ حاجی گلبر خان نے اپنی کابینہ کا اعلان بھی کردیا اس 14 رکنی کابینہ میں 4 سینئر وزیر، 8 وزرا ء اور 2 مشیر شامل ہیں جن میں سینئر وزیر سید امجد زیدی تعمیرات، سینئر وزیر غلام محمد کو خوراک وسیاحت، سینئر وزیر انجینئر محمد اسماعیل کو خزانہ، سینئر وزیر عبد الحمید کو بلدیات کے قلمدان دئیے گئے ہیں جبکہ فتح اللہ خان ترقیات و منصوبہ بندی، سہیل عباس قانون و صحت، شمس الحق داخلہ، غلام شہزاد آغا تعلیم، دلشاد بانو سوشل ویلفیئر وترقی نسواں، مشتاق حسین پانی و بجلی، حاجی رحمت خالق ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، حاجی شاہ بیگ جنگلات، جنگلی حیات و ماحولیات کی وزارت دی گئی ہے جبکہ ثریا زمان انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قلمدان کے ساتھ وزیراعلیٰ کی مشیر کی حیثیت سے کابینہ میں شامل ہیں یہ سبھی لوگ اپنے علاقے اور ملک سے محب وطن ہیں اور لوگوں سے پیار و محبت کرنے والے ہیں یہ دلکش علاقوں کے خوبصورت لوگ ہیں امید ہے ٹوٹی اور ناکمل سڑکوں کو خوبصورتی سے بنوائیں گے تاکہ جنت کے اس تکڑے کو لوگ جی بھر کردیکھ سکیں میں بات کررہا تھا شیوسر جھیل کی ویسے تو گلگت بلتستان میں ایک سے بڑھ کر ایک جھیل موجود ہے لیکن شیوسر دیو سائی کی بلندی پر واقع ہے یہ علاقہ نومبر اور مئی کے درمیان برف سے ڈھکا رہتا ہے موسم بہار کے دوران ارد گرد کا علاقہ پھولوں اور تتلیوں کی وسیع اقسام سے ڈھکا ہوتا ہے جھیل پر آنے والے زیادہ ترسیاح جون اور ستمبر کے درمیان گرمیوں میں آتے ہیں دیوسائی بلتی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے وہ سرزمین جہاں خدا رہتا ہے یہ نام لوک کہانی سے آیا ہے جسے میاں محمد بخش نے اپنی نظم ”سیف الملوک” میں لافانی کردیا ہے دیوسائی کے میدانوں کو چانگ تانگ تبتی سطح مرتفع کے بعد دنیا کا دوسرا بلند ترین سطح مرتفع کہا جاتا ہے یہ پارک 843 مربع کلومیٹر (325 مربع میل) کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اس علاقے کی مٹی شدید طور پر خستہ حال ، موٹی اور مختلف مواد اور سائز کے بجری اور پتھروں سے ملی ہوئی ہے اس علاقے میں وائلڈ لائف کے افسر شفقت ہر وقت سیاحوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں بلکہ وہ 24گھنٹے خوش اخلاقی سے عوام کو بتاتے رہتے ہیں کہ دیوسائی نیشنل پارک کا قیام 1993 میں انتہائی خطرے سے دوچار ہمالیائی بھورے ریچھ اور اس کے مسکن کی بقا کے لیے کیا گیا تھا اور اس محکمہ کی کوشش سے یہ ریچھ کو اب دیوسائی میں زندہ دکھائی دیتا اس کی تعداد 1993 میں صرف 19 اور 2005 میں 40 تھی جو اب بڑھ کر 78 ہوگئی ہے دیوسائی کے میدانی علاقے سائبیرین آئی بیکس، سنو لیپرڈ، کشمیر مسک ڈیر، ہمالیائی بھیڑیا ، ہمالیائی مارموٹ اور 124 سے زیادہ اقسام کے رہائشی اور نقل مکانی کرنےوالے پرندوں کا گھر بھی ہیں پارک میں موجود پرندوں میں گولڈن ایگل، لیمرجیر، ہمالیائی گدھ، لگر فالکن، پیریگرین فالکن، یوریشین کیسٹریل، یوریشین اسپیرو ہاک، اور ہمالیائی سنوکاک شامل ہیں جبکہ دیوسائی میں نایاب پودوں پولیگونم ایفائن، تھیلیکٹرم الپینم، برومس آکسیڈون، سیکسیفراگا فلاجیلارس، اینڈروسیسی میوکرو نیفولیا ، ایسٹر فلیسیڈس، باربیریا ولگارس، آرٹیمیسیا ماریٹیما، ایلیمس لانگیریسٹیٹس، نیپیٹا کوناٹا، کیریکس کروینٹا، رینونکلس لیٹس، اریناکولیس لیٹس، اریناکولیسس، اریناکولیس، ارینا، الیمس لانگیریسٹاس کی بھی بہتات ہے فرانسیسی ماہر نسلیات مائیکل پیسل کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘سونے کی کھدائی کرنے والی چیونٹیوں’ کی کہانی یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے بیان کی تھی جو کہ 5ویں صدی قبل مسیح میں رہتے تھے اسکے ساتھ ساتھ دستاویزی فلم سیریز لینڈ آف دی ٹائیگر کی قسط 5 – ”ما¶نٹینز آف دی گاڈز” میں دیوسائی کے پودوں اور جانوروں کوبھی دکھایا گیا ہے دیوسائی اسکردو شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو دیوسائی جانے کا مختصر ترین راستہ ہے لیکن سڑک خراب ہونے کی وجہ سے منٹوں کا سفر کئی گھنٹوں کا بن جاتا ہے گلگت بلتستان کے حکمران پنجاب کے نگران وزیر اعلی کی طرز پر پلاسٹک روڈ سمیت دیگر کاموں پر بھی غور کرسکتے ہیں پنجاب میں تو محسن نقوی نے جہاں اور بہت سے کام شروع کررکھے ہیں وہیں پر انہوں نے صوبہ بھر میں پلاسٹک روڈز متعارف کروانے کا اصولی فیصلہ کیا ہے بین الاضلاعی سڑکوں کی تعمیر کے 107 منصوبے 3ماہ میں مکمل کئے جائیں گے ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک روڈ تارکول روڈ کے مقابلے میں زیادہ پائیدار ہوتی ہے، تارکول میں پلاسٹک مکس کر کے بنائی جانے والی سڑک جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی اس وقت پنجاب بھر میں 2600کلو میٹر طویل سڑکوں کے بحالی کے 137منصوبے زیر تکمیل ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے