پاکستان کو جرات اور دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے،ورنہ افغانستان پاکستان کےلئے اسرائیل کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس بات کو تاریخی تناظر میں سمجھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہودی بظاہر بنیادی طور پر پرامن ، تعلیم اور معیشت سے دلچسپی لینے والے لوگ لگتے ہیں ۔ مسلمان ممالک اور سلطنتیں صدیوں تک ان کےلئے جائے امان رہی ہیں ،جبکہ مسیحی ممالک میں ان کو نفرت کا نشانہ اور عبرت کا سامان بنایا جاتا تھا۔پھر پہلی عالمگیر جنگ کے بعد برطانیہ نے نئی حکمت عملی وضع کی ۔جس کے مطابق یہودیوں میں پہلے انتہا پسند جنونی تخلیق کیے گیے،پھر ان کو اسرائیل نام کا ملک دیا گیا۔بالکل اسی ڈیزائن پر بیس سال تک افغانستان میں قیام کرنے کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان کو برضا و رغبت اپنے ہی تیار اور استعمال کردہ اسٹوڈنٹس کے حوالے کر دیا۔ وہی افغانستان جس کو امیر امان اللہ اور ان کی ملکہ ثریا طرازی مصطفی کمال اتاترک کے ترکیہ کی طرز پر ایک جدید مسلم ملک بنانا چاہتے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں اور نادانوں کا افغانستان میں تسلط امریکہ کے خطے میں مفادات کے عین مطابق ہے۔قیاس چاہتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے بھی خطے میں وہی کام لینا چاہتا ہے ،جو شرق اوسط میں اسرائیل سے لیا جا رہا ہے ۔اس صورت حال سے بچنے اور اس کا تدارک کرنے کےلئے پاکستان کو اپنی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنانا ہو گا۔اب صورت کچھ یوں بن چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنےوالے پیشہ ور گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں۔ ان دہشت گرد گروہوں کو افغان حکومت کی دردپرہ حمایت اور پاکستان دشمن ملکوں کی مکمل مالی اعانت اور سرپرستی حاصل ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ خود پاکستان میں ایسے دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے اپنے قلوب میں نرم گرم گوشے رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ حافظ گل بہادر اور اس کی تنظیم پاکستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں میں سے ایک ہے ۔ پاکستان افغانستان کی جیبوں میں موجود تمام تر سکوں اور کرنسی نوٹوں سے بخوبی واقف اور بیشتر معاملوں میں راز دار بھی ہے ۔اسی لیے کامل تحقیق اور پختہ شواہد کی بنیاد پر حافظ گل بہادر کی گرفتاری کا مطالبہ جائز اور بین الاقوامی ضوابط کے مطابق بالکل درست تھا۔لیکن افغانستان کی حکومت کے متکبر رویے اور صاف انکار نے خطے میں امن اور رواداری کی خواہش کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے ۔ اڑھائی سالہ افغان حکومت پاکستان کے حوالے سے کسی اچھے اور قابل قبول طرز عمل کا ابھی تک مظاہرہ نہیں کر سکی ہے۔انسداد دہشت گردی، سرحدوں کی سیکیورٹی،غیر قانونی اور غیر مجاز تجارت، اور افغانستان کی حدود میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں جیسے معاملات و مسائل اپنی جگہ پر موجود اور حل طلب تو ہیں ہی ، مگر افغانستان کی انتہا پسند حکومت مقامی و غیر مقامی نشے کے زیر اثر کسی معقول رویے کا مظاہرہ کرنے کےلئے کسی طور تیار نہیں ہے۔ پاکستان نے بنوں خودکش حملے میں ملوث افغان شہری حافظ گل بہادر کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے افغانستان سے شدید احتجاج کیا بھی کیا تھا ۔یاد رہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ شدید احتجاج کرنے کا طویل تجربہ رکھتا ہے ۔ اب تو ہمسایہ ممالک کی پاکستان کے ہر شدید احتجاج پر ہنسی سی نکل جاتی ہے۔پاکستان نے یہ بے وقعت مقام بڑی محنت ، تندہی اوربڑے بڑے نقصانات اٹھانے کے بعد حاصل کیا ہے ۔ ورنہ افغانستان جیسے ملک کی کیا جرات کہ وہ پاکستان کے احتجاج کو وقعت نہ دے ،بلکہ پاکستان کے احتجاج کرنے کی نوبت ہی کیوں آئے۔ستم ظریف کہتا ہے کہ افغانستان میں موجود آپریٹرز پاکستان کے متعلقین کی عزت اسلئے نہیں کرتے کہ وہ سر تا پیر اسمگلنگ کے کاروبار میں ڈوبے ہوئے ہیں۔اور یہ سارا کاروبار افغانستان کی شرکت اور تعاون کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا ۔ دوسری طرف کراچی تا چمن اور طورخم جو زمینی راستہ افغانستان کےلئے لائف لائن کا درجہ رکھتا ہے، پاکستانیوں نے اسے اپنی طاقت بنانے کی بجائے اپنی کمزوری کا عنوان بنا رکھا ہے۔ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنے ملکی مفاد کےساتھ مخلص نہیں ہوتے ، انکی دنیا میں کوئی بھی عزت نہیں کرتا۔پاکستان کے متعلقہ لوگوں اور عمال حکومت کی طرف سے اپنے طرز عمل کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ افغانستان کی طرف سے کبھی سرحدی باڑ کاٹ دی جاتی ہے ، کبھی سفارتی عملے کو ستایا جاتا ہے، کبھی افغان سرحد کے اندر سے پاکستان کی طرف فائرنگ کی جاتی ہے ،کبھی دہشت گرد افغانستان سے آکر پاکستان میں کارروائی کر کے بحفاظت واپس افغانستان میں موجود محفوظ پناگاہوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔یہ سارے کھیل تماشے اور چھپن چھپائی کے مشغلے ختم کرنے ہوں گے ۔ پاکستان نے افغانستان کی پرائی لڑائیوں کا ایندھن بن کر خود کو کافی جھلسا بھی لیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان خود کو غزہ اور افغانستان کو اسرائیل بننے سے ہمیشہ کےلئے روک دے۔ ہمیں پاکستان کے جدید تعلیم سے محبت کرنےوالے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی خاطر اپنے انتہا پسندوں پر مشتمل اثاثے افغانستان میں مستور رکھنا ترک کرنا ہو گا ۔یہ مانتے ہوئے کہ اسلام سلامتی ، علم ، انسانی آزادی اور مساوات کا مذہب ہے ، افغانستان کے انتہا پسندوں سے فاصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ہمیں بین الاقوامی کھلاڑیوں کے اس خطے میں مفادات کی ٹھیکیداری سے جان چھڑانی ہوگی ۔ اگر پاکستان نے اس حوالے سے جرات اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے گریز یا پہلوتہی کی ، تو پھرمذہبی شدت پسند اور قدامت پرست افغانستان علم دوست پاکستان کےلئے اسرائیل کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔اس صورت حال سے بچنے کےلئے ہمیں اپنی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنانا ہوگا ۔