کالم

زہران ممدانی: امریکی سیاست کا نیا چہرہ

دنیا کے بہت سے ممالک میں جمہوریت کے نام پر جو تماشا جاری ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کہیں آئینی خلا، کہیں ادارہ جاتی ٹکراو، اور کہیں شخصی مفادات کی سیاست ان سب نے عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں امریکہ جیسا ملک، جو طویل عرصے تک جمہوری اصولوں، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کا عالمی نشان سمجھا جاتا رہا، اگر انہی کمزوریوں کا شکار ہونے لگے تو سوالات اٹھنا فطری ہیں ۔ امریکی سیاست میں جو کچھ آج کل ہو رہا ہے، وہ محض داخلی کشمکش نہیں بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے سیاسی وقار کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے۔زہران ممدانی جیسے ابھرتے ہوئے، متوازن اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے سیاست دانوں کو نشانہ بنانا، اور ان کے نظریات کو غداری یا انتہا پسندی سے جوڑنا، کسی مہذب معاشرے کے شایانِ شان نہیں ۔ زہران ممدانی یوگانڈا میں پیدا ہوئے، ان کے والدین بھارتی نژاد تھے، اور کم عمری میں وہ امریکہ منتقل ہوئے۔ تعلیم، شعور، اور فکری تربیت کے ساتھ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ان کی پہچان ایک ترقی پسند، عوام دوست اور اصول پرست سیاست دان کے طور پر بنی۔ اب وہ نیویارک کے میئر کے امیدوار ہیں، اور نوجوان، اقلیتی اور مہذب طبقوں میں ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے ۔زہران نہ صرف کرایہ داروں کے حقوق، مفت پبلک ٹرانسپورٹ، اور سماجی تحفظ جیسے مسائل پر آواز بلند کرتے ہیں بلکہ وہ امریکی سیاست کے اس زنگ آلود ڈھانچے کو بھی چیلنج کرتے ہیں جس نے برسوں سے حقیقی نمائندوں کیلئے راستے بند کیے ہوئے تھے۔ مگر یہی شفافیت اور بے باکی شاید سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے قابلِ برداشت نہیں۔ حالیہ تقریر میں انہوں نے ممدانی کو "کمیونسٹ” کہا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ امیگریشن قوانین میں تبدیلی کی کوشش کریں گے تو نہ صرف ان کی شہریت منسوخ کی جائے گی بلکہ جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ یہ زبان اور اندازِ فکر کسی جمہوری ریاست کے شایانِ شان نہیں، بلکہ ایک ایسے مزاج کی غمازی ہے جو اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے بجائے کچلنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جس قسم کی سیاسی انتہا پسندی، الزامات کی سیاست، اور ادارہ جاتی کمزوریوں کا شکار ہو رہا ہے، وہ ہمیں کئی دوسرے ملکوں میں پہلے سے نظر آ چکی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا میں، جہاں آئینی معاملات میں پیچیدگیاں، قانونی نظام میں سست روی، اور بعض اوقات مقدمات میں انصاف کے تقاضوں سے ہٹ کر فیصلے عوام میں بے چینی کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کی صورتِ حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ لاشبہ ہمارے ادارے ایک تاریخی عمل سے گزر رہے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ عوام کا ان پر اعتماد مجروح ہوتا جا رہا ہے۔ عدالتوں سے متعلق بھی یہ احساس پھیل رہا ہے کہ فیصلے شاید انصاف سے زیادہ کسی اور تاثر کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سیننئر رہنما نے حال ہی میں یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ "جج جو خود قیدیوں کی مانند ہیں، وہ ہمیں کیا انصاف دیں گے؟” یہ الفاظ محض سیاسی نعرہ نہیں، بلکہ ایک گہری مایوسی اور اعتماد کے بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ اداروں کی غیر جانبداری، شفافیت، اور اعتماد کا نام ہے۔ جہاں قانون سب کے لیے ایک جیسا نہ ہو، وہاں جمہوری توازن بگڑنے لگتا ہے۔ اگر عوام کو یہ لگے کہ قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے ، اور طاقتور کیلئے جدا اصول ہیں، تو پھر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، وہاں یہ ضروری ہے کہ ریاستی ادارے اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں اور اصلاح کی طرف بڑھیں۔اسی پس منظر میں اگر ہم امریکہ کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہاں بھی وہی رویے جنم لے رہے ہیں۔ جہاں سیاستدان اختلافِ رائے کو دشمنی بنا لیتے ہیں، اور ریاستی ادارے ایک فریق بننے لگتے ہیں۔ٹرمپ کا بیان محض زہران ممدانی پر حملہ نہیں، بلکہ اس نئی نسل کی سوچ پر وار ہے جو ایک بہتر، منصفانہ اور مساوات پر مبنی امریکہ کی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔زہران ممدانی نہ صرف ایک فرد، ایک مسلمان، یا ایک تارکِ وطن ہیں، بلکہ وہ ایک نظریہ ہیں وہ نظریہ جو بتاتا ہے کہ سیاست کا مطلب صرف طاقت کا کھیل نہیں، بلکہ عوام کی خدمت ہے۔ ان کا راستہ مشکل ضرور ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ مشکل راستے ہی ہمیشہ سچائی کی طرف جاتے ہیں ۔ امریکہ کیلئے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکے، اپنے اداروں، عدالتوں اور سیاسی کلچر کا جائزہ لے، اور یہ سوچے کہ وہ کس سمت جا رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی انہی ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے جن پر وہ برسوں سے جمہوریت کے سبق پڑھاتا رہا ہے۔زہران جیسے سیاستدان وہ آئینہ ہیں جو امریکہ کو خود اس کا چہرہ دکھاتے ہیں۔ اگر یہ آئینہ توڑنے کی کوشش کی گئی، تو دراصل امریکہ اپنے ہی چہرے سے نظریں چرا رہا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے