کالم

سائنس وٹیکنالوجی کادور اورتباہی

کسی ملک کی ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر نا ممکن ہے وہی اقوام ترقی اور کامرانیوںکی منزلیں طے کرتی ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں اہم اور ممتاز مقا م حاصل کرتی ہیں۔ فی زمانہ بہت ساری ایجادات ہوئیں اورحقیقت میں بیسویں صدی ایجادات اور سائنسی کامرانیوں کی صدی تھی۔ سائنسی ایجادات کی بدولت زندگی آسان اور سہل ہوگئی ۔ انسان اب تھوڑی سی محنت سے تھوڑے وقت میں بہترین نتائج حاصل کرسکتا ہے اب جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں ، ہمیں بُہت کچھ کرنا ہوگا اورسائنسی ایجادات کے ساتھ ہمیں مذہب ، ادب ، فنون لطیفہ ، سماجی اور معاشرتی علوم کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ فی زمانہ پوری دُنیا میںاور خاص طور پر تیسری دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے بُہت ادارے وجود میں آرہے ہیں اور ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے ہمیں مادی اور مالی فائدہ ہورہا ہو۔مگر بدقسمتی سے مذہب ، ادب،فنون لطیفہ، معاشرتی علوم، سوشل سائنس اور انتھروپولوجی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ پنجاب یو نیورسٹی کے وائس چانسلر نے کیا خو ب بات کہی، کہتے ہیں کہ جس طرح زندگی کے ہر شُعبے میں مادہ پرستی کا رُحجان بڑھتا جا رہا ہے اس طرح ہمارے تعلیمی نظام میں مادہ پر ستی کا زیادہ عمل دخل ہے ۔ طالب علم اُن مضامین میں زیادہ داخلے لینے کی کو شش کر رہا ہو تا ہے جس میں اُنکو زیادہ مالی اور مادی فائدہ ہو تا ہے۔ سائنس نے جو ترقی کرنی تھی وہ تو کر لی اور اسکے ترقی کے اور بھی امکانات ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے ہم سائنس کی ترقی سے اُ س وقت تک مُستفید نہیں ہو سکتے جب تک ہم بشریت، معا شرتی علوم اور انسانی رویوں سے صحیح طریقے آشنا نہ ہوں۔ سائنس جو دورُخی تلوار ہے اسکو اچھے کاموں کی جگہ غلط کاموں کےلئے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کا انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کو بنی نوع انسانوں کے فائدے کی جگہ انسانوں کی تباہی اور بربادی کےلئے زیادہ استعمال کر تا ہے۔ موجودہ دورمیں زندگی تیز سے تیز تر ہو تی جا رہی ہے ۔ انسانی رویوں اور زندگی میں حد سے زیادہ تیزی آئی ہے جو عقلی اور استدلالی نہیں اور جسکی وجہ سے انسان بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہے۔ آج کا انسان انسانیت سے دورہٹتا جا رہا ہے ۔ ہمدردی، محبت خلوص اوربھائی چارہ کی جو فضا آج سے کچھ عرصے پہلی تھی ،ختم ہو تی جا رہی ہے ۔ انسان ایک دوسرے کی تباہی اور بربادی کی طرف مائل ہے۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے آج کل کے طالب علم اُن مضامین اور سبجیکٹ کا چناﺅ توکر تے ہیں جس سے اُسکو مادی اور مالی فائدہ ہورہا ہو تا ہے مگر بدقسمتی سے سوشل سائنس ، آرٹس اور دوسری معاشرتی علوم کی تعلیم کی طرف کو ئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہ بھی ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری الیکٹرانک میڈیا جو ملکی کلچر اور روایات کو سُنوارنے اور بنانے میںبہت اہم کر دار ادا کر تا ہے اُ سکے پروگراموں اور خا ص کر ڈراموں میںایسے کردار اور منظر کشی کی جاتی ہے جو ہماری اخلاقی قدروں، روایات اوثقافت سے قطعاً ہم آہنگ نہیں ہو تی۔ بعض اوقات تو اپنے ملک کے پروگراموں اور ڈراموں کو دیکھ کر ایسا لگتا جیسے ہم کسی اور ملک کے پروگرام اور ڈرامے دیکھ رہے ہو تے ہیں۔ پوری دنیا کا دفا عی اخراجات 1800 بلین ڈالر ہے ۔ جس میں صرف امریکہ کا دفا عی آدھا یعنی 800 بلین ڈالر ہے اور سارے کا سارا بجٹ اسلحے کی خرید وفروخت پر صرف ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ خطیر رقم انسان کی تباہی اور بربادی پر خرچ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگر تیسری دُنیا کے مما لک کے بجٹ کو دیکھا جائے تو یہ غریب مما لک اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرر ہے ہیں۔ پاکستان کے دفاعی اخراجات 5 ارب ڈالرز جبکہ بھارت کے دفاعی اخراجات 60 بلین ڈالرز خرچ کر رہا ہے اور اسی طرح یہ دونوں مما لک ایک بُہت بڑی رقم انسانوں کی فلاح وبہبود کی جگہ انسانوں کی تباہی اور بربادی پر خرچ کر تے ہیں۔یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ سب سے زیادہ بھوکے پیاسے اور غُر بت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ اسی خطے میں رہ رہے ہیں۔ اگردونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ کو اپنے ملک کے لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں تو اس سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اور لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے ۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ہمیں سائنسی علوم کی جگہ مذہب، معاشری علوم جس میں انتھرو پولوجی، سوشیالوجی اور ادبیات شامل ہیں فروع دینا ہو گا۔ اگر ہم واقعی سا ئنسی ترقی اور کامرانیوں سے استفادہ اور فائدہ اُٹھا نا چا ہتے ہیں ۔ تو ہمیں سائنس کے ساتھ ساتھ مذہب، سوشیالوجی اور ادبیات کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ آجکل کے معا شرے میں ادیب اور لکھاری ایک فضول انسان سمجھا جاتا ہے اور اُسکی جو قدر اور عزت معاشرے میں ہو نی چاہئے وہ نہیں۔ہمارے ملک میں ادیب آرٹسٹ اور لکھاری ناگُفتہ بہہ زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی کے آخری آیام میں جب وہ ضعیف ہو تے ہیں، سسک سسک کر دُنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ملک میں سوشل سائنس کے اداروں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ملک کے ادیبوں شاعروں اور آرٹسٹوں کو انسانوں کی تربیت کرنے کےلئے استعمال کرنا ہوگا۔ہمارے مذہبی سکالروں،ادیبوں، لکھاریوں ، صحافیوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اہلکاروں نے اپنے فن پاروں اور تحریروں کی وساطت سے کو شش کرنی ہوگی کہ انسانی رویوں کو اعتدال پر اور اُ س میں ایسی مُثبت تبدیلیاں لائی جائیں جو بنی نوع انسانوں کی فلا ح و بہبود میں ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri