کالم

سانحہ جڑانوالہ:کیایونہی رسوا ہوتے رہیں گے!

(گزشتہ سے پیوستہ)
بہرحال جو بھی ہوا، اس سے بڑا ظلم کسی ریاست میں نہیں ہو سکتا۔ ہم روزانہ بھارت کامکروہ چہرہ دکھاتے ہیں مگر اپنا مکروہ چہرہ ہم دکھانا بھول جاتے ہیں، پھر یہی نہیں بلکہ پاکستان جب سے بنا ہے، تب سے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، تبھی اقلیتیں یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ جب پاکستان بنا اس وقت یہاں غیر مسلم آبادی کا تناسب 23فیصد تھا، جو کم ہوتے ہوتے آج 3.5فیصد تک رہ گیا ہے۔ ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید یہ بات زیادہ عجیب نہیں لگتی مگر دنیا ہمیں جس زاویے سے دیکھتی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ وہ ہمیں شدت پسند، انتہا پسند، دقیق نظریے کے حامل لوگ، تنگ نظر لوگ، معتصب افراد، کم ہمت و کم حوصلے والے افراد، بیزار لوگ اور ناجانے کن کن القابات سے پکارتے ہیں اور پھر تب انتہا ہو جاتی ہے جب ہمارے ہاں سے کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ فلاں مذہب کے افراد کی پوری بستی کو آگ لگا دی گئی، فلاں غیر مسلم شخص کو جلا دیا گیا، فلاںخاتون کو مذہب کے فلاں مقدمے کے تحت گرفتار کر لیا گیا وغیرہ اور پھر ان افراد پر بغیر کسی سنجیدہ تفتیش کے عوامی دبا کو مدنظر رکھ کر سخت سے سخت سزا کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔
شاید اس ملک میں رہتے ہوئے مجھے بھی یہ چیز معیوب نہ لگتی مگرجب میں بیرون ملک جاتا ہوں تو سب اس تنگ نظر قوم کے ایک ادنی سے باشندے کو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ جیسے میں کسی دوسرے سیارے سے آیا ہوں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم بیرون ملک بھی اقلیتوں کو لے کر اکثر آئیں بائیں شائیں کی باتیں مارتے ہیں، مگر وہ سارے اعداد و شمار ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ حتی کہ میرا بیٹا جو امریکا میں زیر تعلیم رہا ہے ، وہ اچھا Debaterہے، بہترین نیوز سینس رکھتا ہے، اور مسائل کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے۔وہ بھی بسا اوقات اپنے دیگر ساتھیوں کے سامنے اس حوالے سے کئی بار خاموش رہا ہے کہ ہم بطور پاکستانی سب کو آزادی سے کیوں نہیں جینے دیتے؟ انہیں ان کے حقوق سے محروم کیوں کرتے ہیں وغیرہ ۔اگر کسی گلی محلے میں کسی نے نفرت پھیلانے کےلئے یا کسی سے ذاتی دشمنی نکالنے کےلئے کوئی سازش رچائی ہے تو ہم اس کی تحقیق نہیں کرتے۔ حالانکہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناپر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے ۔
لہٰذااگر قرآن پاک میں درج ہے کہ ہمیں خبر پھیلنے سے پہلے تحقیق کر لینی چاہیے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے، اس پر عوام کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے، انہیں سینس اور کامن سینس کا مطلب سمجھانے کی ضرورت ہے، ہمارے فیصلہ کرنےوالوں کو اگر فرصت ملے تو اس پر ضرور سوچیں ، بلکہ یہ بھی سوچیں کہ دنیا میں ہم ایسے واقعات سے جہاں بدنام ہو رہے ہیں،وہی اقلتیں بھی ہم سے متنفر ہو رہی ہیں ۔ تبھی کوئی ہمارے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں ۔ کوئی معاشی ادارہ لوگوں کو ہمارے ملک میں آنے کی ترغیب نہیں دے رہا ۔ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں کا م کر رہی ہیں ۔ وہ بھی یہاں سے بھاگ رہی ہیں۔لہٰذا اقلیتوں کے حوالے سے ہم کشادہ ذہن کے ساتھ کام کرکے یہ داغ دھو سکتے ہیں۔
لیکن فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کم و بیش 2کروڑ پاکستانی ملک سے باہر رہ رہے ہیں اور 22لاکھ پاکستانی ہر سال ملک چھوڑ رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں یہ مسائل فیس نہیں کرنا پڑتے ہوں گے ۔ اور یہ وہی پاکستانی ہیں جو ملک میں ہر سال اربوں ڈالر بھیجتے ہیں ۔ لہٰذاہمیں ان کا ہی خیال کر لینا چاہیے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اقلیتوں کے مسائل کو ٹرانسپیرنٹ کریں ، انہیں وہ حقوق دیں جس کی ڈیمانڈ ہم دوسرے ملکوں سے کرتے ہیں، ہم انہیں وہ حقوق دیں جن کی ہم مسلمانوں کےلئے دوسرے ملکوں سے ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پاکستان کا یقینا مثبت چہرہ سامنے آئے گا۔ ہمیں اس سکڑے ہوئے بازو میں جان ڈالنی ہے، یہی ہمارا مشن ہونا چاہیے اور یہی ہماری پہچان ہونی چاہیے تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ورنہ دنیا حقیقت میں ہمیں تنگ نظر کا تنگ نظر ہی سمجھے گی اور ہم کبھی بھی نہیں اٹھ سکیں گے۔ اور یونہی رسوا ہوتے رہیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے