کالم

سانحہ جڑانوالہ ،بے لاگ انصاف کا متقاضی

جڑانوالہ مےں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے ،ادےان مذاہب کے مسلمات و مقدسات کی توہےن ،مسےح برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو جلانے کے جو واقعات رونما ہوئے وہ از حد تکلےف دہ ،افسوسناک اور ندامت و شرمندگی کا باعث تھے ۔مقامی پولےس اور اےڈمنسٹرےشن نے جب متعلقہ مسےحی نوجوانوں کے خلاف قرآن پاک کی بے حرمتی کے سنگےن جرم کے ارتکاب پر ،توہےن مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لےا تھا ،تو پھر مشتعل ہجوم اور مظاہرےن کا قانون ہاتھ مےں لے کر مسےحی برادری پر حملہ آور ہونا ،جلاﺅ گھےراﺅ اور سب سے بڑھ کر ان کی عبادت گاہوں ،گرجا گھروں اور گھروں کو نذر آتش کرنا ،بلا جواز اور قومی و بےن الاقوامی سطح پر ملکی اور ملی بدنامی اور سبکی کا باعث ہوا اور اس کا کوئی بھی جواز قابل قبول نہےں ۔اگر قرآن مجےد کی بے حرمتی ہوئی ہے تو اس حوالے سے رےاست کے قوانےن موجود ہےں ۔ان قوانےن کے تحت کاروائی کرنے کی بجائے مساجد سے اعلانات کےے گئے ،لوگوں کو عےسائی بستی پر حملہ کرنے کےلئے اکساےا گےا اور جتھوں نے آ کر اس بستی کو آگ لگا دی ۔اﷲ تعالیٰ کی زمےن پر فتنہ و فساد پھےلانا اور اس کے بندوں کو بے قصور ستانا ،انہےں تباہ و برباد کرنا اور ان کے حقوق پر ڈاکے ڈالنا اور ان کی اخلاقی ،روحانی اور مادی زندگی کو ہلاکت مےں مبتلا کرنا اﷲکو ہر گز پسند نہےں ےہ تو سرا سر انسانی اقدار کی پامالی ہے ۔جڑانوالہ مےں جو کچھ ہوا بنےادی طور پر ےہ معاشرے کا سب سے تشوےش ناک پہلو ہے کہ ےہاں قانون کو ہاتھ مےں لےنا ،قانون توڑنا ،بہادری کے زمرے مےں شمار کےا جاتا ہے ۔ملک مےں اےسا پہلی مرتبہ نہےں ہوا ۔ماضی مےں بھی اےسے واقعات وقوع پذےر ہو چکے ہےں ۔اقلےتوں کے خلاف عدم برداشت ،انتہائی روےے ناقابل قبول ہےں ۔پاکستان کے تمام شہری بلاتفرےق مذہب ،جنس ذات ےا عقےدہ اےک دوسرے کےلئے برابر ہےں کسی کو قانون ہاتھ مےں لےنے کی اجازت نہےں ۔اب بھارت کی کےا بات کی جائے ،ہمارے ہاں جو کچھ ہو رہا ہے ،ےقےن نہےں آتا کہ اےسا بھی ہو سکتا ہے ۔بات کا آغاز ےوں ہوا کہ مسلمانوں کے محلے کی اےک گلی کی نکڑ سے چند مقدس اوراق ملے تھے جن کی مبےنہ بے حرمتی کی گئی تھی ۔مبےنہ بے حرمتی کرنے والے باپ اور بےٹے کی تصوےر بھی اےک ورق پر موجود تھی اور ان کا پتا بھی لکھا ہوا تھا ۔ےہ امر بھی قابل غور ہے کہ جنہوں نے ےہ کام کرنا تھا وہ کےونکر اپنا نام اور تصاوےر جلے ہوئے نسخوں کے ساتھ رکھتے ۔مساجد مےں اعلانات اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کےلئے پےغامات دئےے جا رہے تھے ۔منظر 1947ءکے واقعات جےسا بنا دےا گےا ۔عےسائی کمےونٹی اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئی ۔کچھ نزدےکی شہر فےصل آباد مےں اپنے عزےزوں کے گھروں مےں چلے گئے اور جن کا کوئی نہےں تھا وہ اپنی خواتےن اور بچوں سمےت کھےتوں مےں روپوش ہوئے ۔100کے قرےب مسےحی گھروں کو جلا دےا گےا اور 20گرجا گھروں کو خاکستر کر دےا گےا ۔ظاہر ہے بائبل کی کتابوں کو بھی نقصان پہنچا ہو گا ۔ےہ قبےح اور بے ہودہ حرکت تو دو افراد نے کی تھی اس پر گرجا گھروں اور ہزاروں دوسرے مسےحی باشندوں کا کےا قصور تھا؟ شکر ہے کہ اس احتجاج اور توڑ پھوڑ مےں کسی شخص کا جانی نقصان نہےں ہوا ،کوئی زخمی نہےں مگر ےہ کےا کم دہشت گردی ہے 20گرجا گھروں اور 100گھروں کو نذر آتش کر دےا گےا ۔سابقہ وزےر اعظم پاکستان شہباز شرےف نے بالکل بجا کہا ہے کہ پاکستان کے قےام مےں مسےحی برادری کی قربانےاں بھی شامل ہےں ۔بھارت کے خلاف جنگوں مےں پاکستان کی ائےر فورس ،بری اور بحری افواج و پولےس مےں ان کی خدمات عےاں ہےں ۔حال ہی مےں مسےحی تعلےمی اداروں اور گرجا گھروں مےں پاکستان کے ےوم آزادی پر پر جوش تقرےبات منعقد ہوئےں ۔تارےخ اس حقےقت پر شاہد ہے کہ قےام پاکستان کے بعد آج تک کبھی مسےحی طبقے نے کوئی شر انگےزی نہےں کی ۔چند مسےحی نوجوانوں کی غےر شائستہ حرکت کی بنا پر پوری برادری کو نشانہ ستم بنانا کہاں کا انصاف ہے ؟ ےہ جو پاکستان مےں اتنے دھماکے ،دہشت گردی کے واقعات جن مےں 6ہزار فوجی شہےد ہوئے اور 70ہزار سے زےادہ افراد کی شہادتےں ہوئےں ان سب مےں نام نہاد مسلمان تنظےمےں ٹی ٹی پی ،بلوچ آرمی و فرنٹ وغےرہ مےں کوئی غےر مسلم فرد شامل نہےں ۔زمانہ ابتدائے اسلام کا واقعہ راقم کے نہاں خانہ ذہن پر نمودار ہوا ۔بعثت کے پانچوےں سال ،حبشہ جو کہ اےک عےسائی رےاست تھی ،کے بادشاہ نجاشی کے پاس مہاجرےن کا اےک وفد جس مےں 12مرد اور 4عورتےں شامل تھےں پےش ہوا ۔ےہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کےلئے مکہ کی سر زمےن تنگ کر دی گئی تھی وہ اپنی جان اور اےمان بچاتے پھر رہے تھے ۔مشرکےن مکہ کا اعلیٰ سطحی وفد عمرو بن العاص کی قےادت مےں حبشہ پہنچا تو حضرت جعفر طےار نے سورہ مرےم کی تلاوت کی ۔حضرت عےسیٰ اور ان کی والدہ حضرت مرےم کی پاکےزگی اور پاکبازی کاتذکرہ حضرت جعفر طےار کے لحن پر تاثےر سے سن کر نجاشی پر گرےہ طاری ہو گےا ،او ر اس نے راہ حق کے ان مسافروں کو صرف تحفظ ہی نہےں ،احترام بھی فراہم کےا ،انہےں صرف مذہبی ہی نہےں معاشرتی آزادی اور تحفظ بھی عطا کےا ۔حضرت ابو قتاوہ ؓرواےت کرتے ہےں کہ جب حبشہ سے نجاشی کی طرف سے اےک وفد بارگاہ رسالت مےں حاضر ہوا تھا تو نبی اکرم بنفس نفےس ان کی خاطر مدارت اور تواضع مےں مصروف ہو گئے ۔صحابہ ؓ نے عرض کی ےا رسول اﷲہم آپ کے غلام ان کی خاطر مدارت کےلئے حاضر ہےں آپ کےوں زحمت فرماتے ہےں ۔آپ نے ارشاد فرماےا :مےرے صحابہ جب وہاں گئے تو ان لوگوں نے ان کی بڑی عزت کی ۔اب مےں چاہتا ہوں کہ مےں ان کی خود خاطر مدارت کر کے ان کو صلہ دوں۔ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ جب فجر کی اذان کے بعد عےسائی بستی پر حملے کے اعلانات ہو رہے تھے تو اس وقت ہمارے ےہ ادارے سو رہے تھے ؟ےہ امر مضحکہ خےز ہے کہ ہماری اےجنسےوں نے ماضی مےں ہمےشہ وقوعہ رونما ہونے کے بعد ہی تےزی اور چابکدستی دکھائی اور جائے وقوعہ پر حفاظتی انتظامات اور سےکورٹی سخت کر دی حالانکہ بعد مےں کےے گئے اقدامات کا کوئی فائدہ نہےں ہوتا ۔پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ اےک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے اندر امن خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔قانون ہاتھ مےں لےنے کی دنےا کا کوئی معاشرہ اور قانون اجازت نہےں دےتا ۔نگران وزےر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بےن الاقوامی ہم آہنگی سے متعلق اجلاس مےں کہا کہ جڑانوالہ کا واقعہ بہت افسوسناک ہے ۔ےہ منصوبہ بندی سے کےا گےا ہے ۔انہوں نے کہا کہ واقعہ کی شفاف تحقےقات کی جائےں گی ۔تےن سے چار روز مےں پےش آنے والے نقصان کو پورا کےا جائے گا ۔وزےر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا بڑی حد تک درست ہے کےونکہ ےہ واقعہ بھی پاکستان کو سخت قسم کے داخلی اور اقتصادی عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش ہے ۔اس قسم کے واقعات سے نہ صرف عالمی برادری مےں وطن عزےز کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ملکی اور غےر ملکی باشندوں مےں خوف و ہراس اور جان و مال کے عدم تحفظ کا احساس بھی بڑھتا ہے اور ساتھ ملکی معےشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہےں ۔ملکی اور غےر ملکی سرماےہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ےہ تحقےق بہت ضروری ہے کہ ےہ کون سے عناصر ہےں جو دہائےوں سے پر امن رہنے والے مسلمانوں اور مسےحی بھائےوں کے درمےان نفرت اور فساد کی دےوارےں کھڑی کرتے اور مذہب کو اس کےلئے بطور ہتھےار استعمال کرتے ہےں ۔اس کہانی کے پےچھے ان کرداروں کا کھوج لگانا بہت ضروری ہے جو ہداےت کار تھے ۔اس مےں کوئی دو رائے نہےں ہے کہ اسلام مےں غےر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعظےم کا حکم دےا گےا ہے ۔قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والا بھی شر انگےز ہے اور جنہوں نے چرچ اور مسےحی بھائےوں کے گھروں کو جلاےا وہ بھی شر انگےز ہےں ۔دونوں سے رےاست کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہےے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے