کالم

سلام عقیدت دُوسری برسی پر محسن پاکستان کو !

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہم سے بچھڑے ہوئے دو سال ہوگئے ہیں ۔آج اِن کی برسی ہے مگر ہماری قوم کو شیاد یہ دِن یاد نہیں ہوگا اور نہ حکومت کو ۔قومی سطح پر نہ تو کوئی سرکاری تقریب ہوگی اور نہ ہی سماجی سطح پر کوئی ایسی تقریب نمایاں ہوگی ۔ہو سکتا ہے اِن سے والہانہ لگاﺅ رکھنے والی ایک دو تنظیمیں اِن کی یاد میں کوئی تقریب منعقد کردیں ورنہ پورا دیس خاموشاں رہے گا۔چندسماجی،ادبی،سوشل تنظیموں کے کچھ افراد ہوسکتاہے کہ اِن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اِن کی قبرپر حاضری بھی دیں۔مگر حکومت کہاں کھڑی ہے کہ ایک بھی تقریب وزیر اعظم ہاو¿س ،صدرہاو¿س ،گورنرہاوسز ووزرائے اعلی ہاوسز میں آ پ کو ہوتی دکھائی نہیں دے گی۔کیا زندہ قوموں کا یہ شیوہ ہوتاہے۔کوئی ریلی اِن کی یاد میں عوام بھی نہیں نکالے گا۔یہ اِن سے کیسی عقیدت وچاہت کا رشتہ ہے کہ ہر طر ف سناٹا ہے ۔لب آزاد ہونے کے باوجود قوم بھی ایک عظیم محسن کو خراج تحسین پیش نہیںکررہی ہے۔نہ اخبارات میںکوئی سپشل ایڈیشن آئیں گے نہ میڈیا اِن کی یاد میںکوئی پروگرام کرے گا۔وہ ایک شخص نہیںا پنی ذات میں انجمن تھے وہ قومی شخصیت جس کے لیے قوم کے دل میں قائداعظم ؒ کے بعد سب سے زیادہ احترام وعقیدت ہے۔ اگست 1974 ءکو اُنہوںنے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو خط لکھا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا سکتے ہیں اور پھر چند ماہ کی وزیر اعظم کی کوششوں سے وہ ایک شاندار مستقبل چھوڑ کر پاکستان شفٹ ہوگئے اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم میں شامل ہوگئے ۔ چند ہی ماہ میں اِن کو انداز ہ ہوگیا کہ ڈیپارٹمنٹ کے اندر سے اور بیورکریسی کے چند افسران کی جانب سے اِن کے کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید سے ملے اوراِن کو آگاہ کیا ۔ پھر وزیراعظم پاکستان نے ان کو مکمل اختیارات کے ساتھ کام کرنے کے احکامات جاری کیے کہ کوئی اِن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔1975ءمیں اِن کے کام کو اٹامک انرجی کمیشن سے الگ کرکے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھ کر کیا گیا جس کا تمام انتظام آرمی انجینئرنگ کورز اورپاک فوج سیکورٹی کے زیرنگرانی ڈاکٹر قدیر خان کو بطور چیف سائنٹسٹ کام کرنے کا مکمل اختیار مل گیا ۔بعد میں آپ کے نام پر قدیر ریسرچ لیبارٹری کا نام اِس ادارے کو دے دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومت کے بعد ضیا الحق کا گیارہ سالہ دور آیا تو وہ بھی پاکستان ایٹمی پراجیکٹ کے لیے سینہ تان کر امریکہ ودیگر یورپی یونین طاقتوں کے سامنے کھڑے رہے اورصرف دس سالوں کی محسن پاکستان اور اِن کی ٹیم کی کوششیں رنگ لائیں اور پھر دس دسمبر1984ءکو آپ نے جنرل کے ایم عارف وائس چیف آف آرمی سٹاف کو خط لکھا کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے اور چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ہم دھماکہ کرسکتے ہیں۔یہ خط آرمی چیف جنرل ضیاالحق تک پہنچادیں۔صرف دس سال کی شب وروز کی محنت سے محسن پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا اورپھر مناسب وقت کا انتظار تھا کہ کب دھماکہ کرکے دُنیا کو بتا دیں کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور پھر جب بھارت نے گیارہ مئی پانچ دھماکے اور تیرہ مئی کو دو دھماکے کیے تو پھر پاکستان ایک دم دباﺅ میں آگیا کہ دُشمن کو کیسے اِن د دھماکے کیے تو پھر پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے یہ لازمی ہوگیا کہ وہ ایٹمی دھماکہ کرنے کا حکم جاری کریں۔ باقی سب چیزیں بعد میں آتی ہیں اور پھر 28 مئی 1998ءکو چاغی (بلوچستان ) کی پہاڑ پر ایٹمی دھماکہ ٹیسٹ کرکے دُنیا کو یہ بآور کروادیا گیاکہ پاکستان اب دُنیا ساتویں اٹیمی طاقت بن چکاہے۔ پھر ایٹمی طاقت بننے کے بعد محسن پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا یہ ایک دردناک وتکلیف دہ تاریخ ہے ۔ مشرف دور سے لے کر عمران خان تک ہر دور میںاِن سے ایک قیدی کا سلوک کیا گیا ۔عدالتی حکم کے باوجود اِن کو مرتے دم تک گھر تک سیکورٹی کے نام پر محصور رکھا گیا وہ اپنے لیے انصاف مانگنے کے لیے عدالتوں کا چکر لگاتے رہے مگر انصاف اِن سے دُور کردیا گیا۔ وہ ایک بہترین کالم نگار بھی تھے جن کے کالمز ایک تاریخ کے طالب علم کے لیے نہایت قیمتی معلومات کے ساتھ منسلک ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھا مگر جلد ہی جان گئے کہ یہ شعبہ اِن کی قد آور شخصیت کے مطابق موافقت نہیں رکھتاہے اور وہ اِس کے لیے موزوں نہیں ہیں اور پھراُ نہوں نے اپنی ساری زندگی سماجی کاموں میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔سماجی کاموں میں آپ نے مذہب ،تعلیم و صحت کے شعبے میںڈاکٹر عبدالقدیر خان ٹرسٹ کے زیرنگرانی ایک بڑا ویلفیئر پراجیکٹ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہسپتال کے نام پر شروع کردیا جو کہ غریب ونادار افراد کےلئے خدمت کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔بہت ساری مساجد ،تعلیمی ادارے اور سوشل ویلفیئر سنٹر ز بھی محسن پاکستان نے اپنی زیرنگرانی اِس قوم کے لیے بنوائے ۔اِسلا م آباد سے 80 کلومیٹر دُور ڈھمیک گاﺅںتحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں مشہورسلطان شہاب الدین محمد غوری مدفون ہے جس نے دہلی 1192 ءمیں فتح کیا اور پہلا مسلمان حکمران ہندوستان کا بنا ۔ آپ سلطنت غوریا کے دُوسرے اورآخری حکمران تھے ۔مسلمانوں کے اپنے دور کے فاتح کی قبر کی خستہ حالت کی اطلاع آپ کو آپ کے ایک ڈرائیور نے دی اور پھر آپ نے فوری طور پر اِس کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور مزار کے اندرونی حصہ۔قبر اور دیواروں پر سفید سنگ مرمر لگوا دیا اورچھت کو منکاری سے سجا ڈالا۔ایک تاریخی ورثہ کو محفوظ کرلیا یہ 1990 ءتک ایک سادہ قبر تھی جہاں مقامی لوگ قبر پر چراغ جلاتے تھے۔آپ نے1994-95 میں ایک شاندار مزار کی شکل میں بدل ڈالااورپھر بعد میں اِس تاریخ ورثہ کو آثار قدیمہ پنجاب کے حوالے کردیا۔و ہ ایک عاشق رسول ﷺ تھے ۔صوم وصلوة کے پابند تھے۔وہ ایک رول ماڈل تھے جو منافقت سے دُور،ایک درویشن صفت انسان تھے۔سادگی اورعاجزی کے ساتھ زندگی گزارنے والا یہ عظیم محسن تھا۔ ایک ہسپتال لاہور میں بنایا جو غریب لوگوں کی خدمت کررہاہے ۔ میرا اِن سے قلبی اوراحترام وعقیدت کا رشتہ تھا میری بطور کیئریر کونسلر نوجوان نسل کی خدمات کو اپنے ہاتھ سے قیمتی الفاظ لکھ کر میرے لیے ایک اعزاز بنا دیا جس پر ہمیشہ مجھے فخررہے گا۔ ایک بار اِن سے میںنے بذریعہ موبائل میسج پوچھا کہ نوجوان نسل کے لیے آپ کیا پیغام دیں گے تو کمال کا پیغام اُنہوںنے نوجوان نسل کے لیے دیا اور کہا کہ میرے وطن کے نوجوانو ںکو میرا پیغام دے دو”براہ کرم یاد رکھیں کہ ثابت قدمی اِس کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے“۔دُ عاہے کہ اللہ تعالیٰ محسن پاکستان کو جنت الفردوس میں بلند مقام دے ( آمین)۔ محسن پاکستان کا ایک شعر اپنی ریاست ورعایا سے گلہ شکوﺅں وناراضگی کا اظہار کچھ یوں کررہاہے :
اِس مُلک بے مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اورباکمال ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے