اداریہ کالم

سمندری طوفان بائپرجوئے کاخطرہ اورحکومتی اقدامات

idaria

سمندروں میں اکثرطوفان آتے رہتے ہیں جن میں سے بعض کی شدت زیادہ ہواکرتی ہے اوربعض کی کم، بعض اوقات یہ طوفان تباہی کے پیشہ خیمہ بنتے ہیں مگر ایساصرف اس صورت میں ہوتا ہے کہ جب پہلے سے اطلاع نہ ہواوراس کے لئے مناسب حفاظتی اقدامات نہ کررکھے گئے ہوںمگرخوش قسمتی سے پاکستان کے پاس میری ٹائم ،کوسٹل سروسزاورپاکستان بحریہ جیسے ادارے موجود ہیں جو ہروقت سمندرکے مدوجزرپرگہری نظررکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی شہراحمدآباد اورکراچی کے درمیان آنے والے سخت سمندری طوفان سے کراچی کاشہرمحفوظ رہااس حوالے سے حکومت سندھ کی کارکردگی بھی مثالی رہی جنہوں نے بروقت ایکشن کرتے ہوئے سمندر کے اطراف اورجزیروں میں آباد شہریوںکووہاں سے نکال کرمحفوظ مقامات تک پہنچادیا۔تاحال کسی قسم کے نقصان کی اطلاع نہیں ملی اوریہ خبریں خوش آئند ہیں حکومتی اداروں کواسی طرح چوکس ،چاق وچوبندرہتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتربنانی چاہیے۔اطلاعات کے مطابق سمندری طوفان بائپر جوائے کی شدت میں کمی ہوئی ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق طوفان انتہائی شدید سے شدید میں تبدیل ہوچکا تاہم یہ خطرناک رہے گا ۔ طوفان کے مرکز میں ہوا کی رفتار 180 کلو میٹر کو چھونے لگی ہے، طوفانی سسٹم کے مرکز کے اطراف سمندر میں شدید طغیانی ہے، لہریں 30 فٹ تک بلند ہونے لگیں۔ سمندری طوفان 15 جون یعنی جمعرات کی دوپہر کے قریب کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیان 150 کلومیٹر کی رینج میں ٹکرائے گا، کیٹی بندر کو خالی کروادیا گیا ہے جہاں طوفان کل ٹکرائے گا۔کراچی میں تیز ہواﺅں کا راج ہے، بدین اور ٹھٹھہ سمیت کئی دیگر ساحلی علاقوں سے بھی ہزاروں افراد کا انخلا کرلیا گیا ہے، سجاول سے بھی لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی۔ سمندری طوفان بائپر جوائے کے ممکنہ خطرات کے باوجود ساحلی علاقوں کے سیکڑوں گاوں میں ابھی تک ہزاروں افراد موجود ہیں، انتظامیہ زبانی دعوﺅں تک محدود ہے، ریلیف کیمپوں پر لوگوں کو لاکر بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ہمیں یہاں کیمپ میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے،کیٹی بندر پر پانی کی سطح مسلسل بلند ہونے لگی ہے، کاروچھان کے کئی دیہات زیر آب آگئے ہیں، بدین کے ساحلی علاقوں میں پانی ماہی گیروں کی بستی کے قریب داخل ہو گیا۔ ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں خاص طور پر آندھی اور تیز بارش ہوگی اور اس بارش کا پھیلاو تھرپارکر، عمرکوٹ اور میرپورخاص تک ہوگا۔سندھ کے 6اضلاع اس وقت حساس ہیں، تیز ہوائیں اور سمندری لہروں کی اونچائی زیادہ ہوتی ہے تو ساحلی پٹی کے نشیبی علاقے متاثر ہو سکتے ہیں۔ مٹی کے طوفان اور درمیانے درجے کی بارش کا امکان ہے، شہر قائد میں طوفان سے زیادہ خطرہ نہیں۔سائیکلون شہر کے جنوب سے نکل جائے گا، بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر کے علاقے اورماڑہ میں سمندری طوفان بائپرجوائے کے باعث سمندر کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ معاملہ زیادہ سنگین نہیں ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس ہوا، شہباز شریف نے ہنگامی امداد کیلئے کمیٹی بنادی ہے۔وزیراعظم نے سمندری طوفان بائپرجوائے سے متاثرہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کا مکمل انخلا کرنے اور طوفان سے ممکنہ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو امدادی سامان کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔پاک بحریہ نے بدلتی صورت حال اور بر وقت امدادی کاروائیوں کی نگرانی کے لئے ہیڈ کوارٹر کمانڈر کراچی میں سائیکلون مانیٹرنگ سیل قائم کر دیا ہے، پاک بحریہ جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کوآرڈینیشن سینٹر کی جاری کردہ ہدایات کے مطابق تمام ا سٹیک ہولڈرز بالخصوص ماہی گیروں کو گہرے اور کھلے سمندر میں نہ جانے کے لیے متنبہ کیا جا رہا ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 1947کی تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں سے ٹکرانے والے طوفانوں کی ریکارڈ شدہ تاریخ کم از کم 10 جولائی 1894کی ہے جب ایک سمندری طوفان سندھ میں داخل ہوا تھا جبکہ اگلے سال بلوچستان کے مکران ساحل پر سمندری طوفان نے تباہی مچا دی تھی۔پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان مئی1901بلوچستان، مئی1902کراچی، جون 1906، جون 1907، ستمبر 1926 طوفان بھارتی گجرات سے پاکستان میں داخل ہوا تھا، جون 1936، جولائی 1936، جولائی 1944کراچی میں تقریباً 10ہزار لوگ بے گھر ہو گئے۔ جون 1948، جون 1964تھرپارکر اور حیدر آباد سمندری طوفان سے متاثر ہوئے جس میں 450افراد ہلاک اور تقریباً 4لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ نقصان کا تخمینہ 4.1ملین ڈالرز لگایا گیا تھا۔ 15دسمبر 1965کو کراچی میں آنےوالے سمندری طوفان نے تقریباً 10ہزار جانیں لی تھیں، 1970کے مشرقی پاکستان میں آنےوالے طوفان نے5لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا، نومبر(1993)ایک سمندری طوفان سندھ گجرات سرحد کے قریب منتشر ہوا تھا تاہم وہ کراچی میں زبردست بارش اور سیلاب کا سبب بنا۔
پاک ایران کا دوطرفہ تجارتی حجم میں اضافے پرزور
پاکستان کے دورے پرایران سے آنیوالے وفد نے دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم میں اضافے کی ضرورت پرزوردیاہے گوکہ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے تجارت ہورہی ہے اب اس میں ایک قدم اورآگے بڑھ کردونوں ممالک بارٹرزسسٹم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے رائج کرنے کی کوشش کررہے ہیںتاکہ دونوں ممالک اپناقیمتی زرمبادلہ بچاسکیں تاہم تجارت میں اضافہ دونوں ممالک کی ضرورت ہے ۔اسی حوالے سے وفاقی وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق اور ایران کے نائب وزیر و سربراہ ادارہ برائے سرمایہ کاری، معیشت اور تکنیکی معاونت علی فخری کی قیادت میں ایرانی وفد کے درمیان ملاقات اور بات چیت کے بعد جاری ہونےوالے اعلامیہ میں کیا گیا۔پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارتی حجم میں اضافہ اور ایک دوسرے کی کاروباری برادری کو سہولیات دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے، دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، زراعت، بنیادی ڈھانچہ، مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی سمیت تکنیکی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ اور پاک ایران گیس انیشیٹو جیسے منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل پر بھی زوردیا ہے۔ بات چیت میں دوطرفہ اقتصادی تعاون اوردونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کا جائزہ لیا گیا۔
مودی کی ہندونوازپالیسیاں خطرناک
پڑوسی ممالک بھارت میں برسراقتدارمودی حکومت خطے کی سلامتی اورامن کے لئے خطرہ بنتی جارہی ہے مودی خطے میں طاقت کاتوازن برقراررکھنے کی بجائے ہندوتواکی پالیسیوں پرعمل پیراہے۔مودی نے ہندوستان میں مذہبی تقسیم کی گہری دراڑ ڈال دی،مودی نے اقتدار کی خاطر ہندو اکثریت کو اقلیتوں کے سامنے لا کھڑا کیا،سی ایس ڈی ایس کے حالیہ سروے نے بھارت میں بڑھتی ہندو مسلم نفرت کا بھانڈا پھوڑ دیا،سروے میں کئے گئے سوالات کے جوابات میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے،صرف 2فیصد ہندﺅں کے مقابلہ میں 28فیصد بھارتی مسلمانوں نے مودی دور میں معاشی حالات کو خراب ترین قرار دیا،بی جے پی کی کارکردگی سے 59 فیصد ہندو¿ مطمئن جبکہ 57 فیصد مسلمان نالاں ہیں،بی جے پی کو ووٹ ڈالنے کے معاملے پر 45فیصد ہندو¿ جبکہ صرف 15فیصد مسلمانوں نے مثبت جواب دیا، مسلمانوں کی اکثریت کانگرس جبکہ ہندو¿ اکثریت BJP کو ووٹ ڈالنے کی خواہاںہے،سروے کے مطابق 50 فیصد ہندو جبکہ صرف 15فیصد مسلمان مودی کو دوبارہ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔68فیصد ہندو¿ مودی کو پسند جبکہ 70فیصد مسلمان مودی سے شدید نفرت کرتے ہیں، بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو نواز پالیسیوں اور مسلم ک±ش اقدامات کی بدولت مذہبی تقسیم مزید گہری ہوچکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri