کالم

سنجیدگی سے غورکرناہوگا

ہمارا موجودہ سسٹم اتنا بوسیدہ،اپاہج اورمفلوج ہوچکاہے کہ کسی کو بروقت انصاف بھی فراہم نہیں کرسکتا۔ٹھیک وقت پر کسی کے کام بھی نہیں آ سکتا۔کسی مظلوم ،محروم ، فریادکناں کی فوری دل جوئی بھی نہیں کرسکتا ۔ اُس کو حاصل حقوق اُس کے گھر کی دہلیزپر مناسب وقت میں نہیں پہنچا سکتا ۔ مرحومین ،متاثرین کے دکھوں ،تکلیفوں کا صحیح مداوا نہیں کرسکتا۔ موجودہ سسٹم میں آپ جہاںبھی دیکھیں ،انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہرطرف آسیب کے ہی سائے ہیں ۔ کوئی کام بھی ڈھنگ اورطورطریقے کے مطابق ہوتا نظرنہیں آرہا۔کام کرنے کے انداز اور طریقے ایک نیا انداز اپنائے،نئے پاکستان اور تبدیلی سرکار میںایک الگ ہی ماحول بنائے ہوئے ہے ۔ ہر جائز اور مبنی بر حق کام میں بھی روایتی سستی وکوتاہی کاہی عمل دخل نظر آتا ہے ۔ہمارے ملکی اداروں میں بیٹھے افراد کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔ہاتھوں پر ہاتھ رکھے،آلتی پالتی مارے ،خوش گپیوں میں مصروف،چائے پانی پیتے ،سارا ورکنگ ڈے گزار کر ،گھر کی راہ سدھارلیتے ہیں اورمظلومین ہائے اور سسکیاں بھرتے ہی رہ جاتے ہیںاور ہوتاکچھ بھی نہیں۔محرومین حق کےلئے صدائیں لگاتے نظرآتے ہیں مگرحق ہے کہ اداہی نہیں ہوپاتا۔متاثرین ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی کچھ حاصل نہیں کرپاتے اور افسران ہیں کہ کام اور فائلوں کے انبار لگے ہیں مگر دیکھنا ہی پسند نہیں کرتے۔عہدے اور اختیار کے نشے میںکام اور فائلوں کو ہاتھ لگانا شجرممنوعہ سمجھتے ہوئے ایک معیوب حرکت تصور کرتے ہیں۔کام لٹکائے ، فائلوں کو دیمک زدہ الماریوں میں زمانے بھرکی کثافتوں اور غلاضتوں میں ڈالے موڈ اور مزاج بخیر ہونے کے انتظار میں بند کیے بیٹھے ہیں ،پر کوئی کام بھی فوری یابروقت نہیں کرتے۔کام اور فائلوں کو DELAY LIST میںڈالنا ہی اِن اعلیٰ افسران کا سارا کارنامہ اورکام ٹھہرا ۔ نجانے کیا بات ہے کہ کام اور فائلوں سے ایسے گھبراتے ہیں کہ جیسے یہ کام یا فاعلیں نہ ہو،کوئی آفت ،مصیبت یا تکلیف دہ چیز ہو۔کام کو لمبا کرنے کی ان افسران کو عادت اور لت لگ چکی ہے ۔بے لگام اور نک چڑھی بیوروکریسی کوکام یا فاعل کو ہاتھ لگانا گویا ایک عذاب لگتا اور تکلیف دہ عمل محسوس ہوتا ۔ ہمارے کرتا دھرتاﺅں کو یہی پسند کہ ائیرکنڈیشنرکمرہ ہو، خود ہواور خدمات کےلئے ملازم ،نوکر چاکر ہو،بس دوسرااورکچھ نہ ہو ۔ کام اور فائلیں تو بالکل ہی جھوٹ ہو جائے ۔ اگر کام اور فائلیں ہوںتو کرنے کےلئے کچھ نہ ہو۔اپنے سے اُوپر اعلیٰ احکام تک کی آنکھوں میں کمال مہارت سے دُھول جھونکنے کی ماہربیوروکریسی کے نزدیک ایک لفظ ویٹ پر پڑاملتاہے کہ کام ہورہا ،WAIT PLEASE ۔انتظار ، انتظاراور انتظار کی اداراتی پالیسی ،حکمت عملی اوراِس عمل سے ،ذہنی کوفت اور کام نہ ہونے کی تکلیف سے دوچار افراد پریشان ،بے چین اور بے اقرار ہوئے اعلیٰ احکام کو کوستے نظر آتے ہیں ۔ اپنے کام اور حقوق بروقت نہ ملنے کے سبب ٹوٹے دل اور بوجھل قدموںکے ساتھ گلہ شکوہ وشکایت کرتے پائے جاتے ہیںمگر افسوس کہ ایسے بے بس افرادکو اُن کے جائز کاموں کےلئے بھی ذلیل ورسوا ہونا پڑتاہے اور دفتروں کی خاک در خاک چھاننا پڑتی ہے اورکام ہیں کہ مرض بڑھتاگیا ،جوں جوں دواکی والا معاملہ ہوتا ہے ۔لٹکتالٹکتا ،لٹک کرہی رہ جاتاہے ۔ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔ایسے میں محرومین اور متاثرین کا حال وہ ہوجاتاہے کہ کاٹو تو بدن میںخون نہیں۔ایسے لوگ اپنے جائز حقوق کےلئے دھکے اور ٹھڈے کھاتے نظر آتے ہیں اور اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے فکرمند دکھائی دیتے ہیں جو کہ انتہائی مخدوش نظر آرہاہوتاہے ۔ہمارے سسٹم میں موجود یہ روش ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی ملکی روشن اور ترقی کرتا پاکستان کےلئے مناسب ہے۔ہمیں ایسے عوامل سے گریز کرنا ہوگاجس سے کسی حق دار کا گلہ گھونٹنے یا حق ماراجائے یا کام ٹھیک وقت پر نہ ہو۔ترقی کرتا پاکستا ن کی راہ میں حائل کام نہ ہونا اور فائلوں کا الماریوں میں ہی پڑے رہنا ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔وہ دیس کبھی بھی ترقی کا زینہ طے نہیں کرسکتا،جس کے کام اور تیار فائلیں الماریوں میں پڑی ہوئی اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہواوراُس کے نوجوان اُن کےلئے سڑکوں پر۔ہمارے موجودہ سسٹم میںکام کابروقت نہ ہونا اور فائلوں کا الماریوں میں پڑے رہناایک بہت بڑی قباحت ہے ۔اِسے ختم کرناہوگا۔تبھی ایک بہتر اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے ورنہ خوشحال ،ترقی کرتا پاکستان ایک خواب ہی تصور ہوگا۔ کام کے نہ ہونے اور فائلوں کے سال ہا سال الماریوں میں پڑے رہنے سے اچھا تاثر نہیں ملتا اورنہ ہی مضبوط و مستحکم پاکستان کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہیں۔ہم لاکھ ترقی کرلیں ،چاندسورج فتح کرلیں،وسیع ملک و سلطنت پالیں، سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلیں ۔چاند پر کمند ڈال لیں ۔ اپنے گھوڑے خشکی وتری پر دوڑادیں۔ہم کامیاب نہیں ہیںتب تک جب کام اور فائلوں کوالماریوں سے نکال کر حق دار کو اُس کا حق ادانہ کردیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور خوشحالی کی منازل طے کرے تو ہمیں ا ن تمام عوامل پر جو اِس کی ترقی و خوشحالی کو بریک لگائے بیٹھے ہیں پر کام کرنا ہوگا ، تبھی خوشحال اوربہتر پاکستان کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچے گا ۔ نجانے کتنے لوگ جدید دور میں بھی اِس بوسیدہ نظام کے سبب اپنے کام بروقت نہ ہونے اور فائلوں کے یوں کئی کئی ماہ الماریوں میں پڑے رہنے سے آوازار اور زندگی سے اجیرن ہوچکے ہیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کے پھنسے ہوئے کاموں اور فائلوں پرسنجیدہ ہوئے کام کرنا ہوگا۔تبھی یہ ملک ترقی کر سکے گا وگرنہ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے