پاکستان

سوشل موبلائزیشن: پسماندگی کا شکار ماؤں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا ایک زریعہ

تحریر کاشف شمیم صدیقی

دنیا کی کوئی تخلیق ’’ماں‘‘ کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، ماں کرہ ارض پر وہ واحد ہستی ہے جسے ربِ کریم نے ایسی بے مثال صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ آخری سانس تک اپنے عظیم کردار کو بخوبی نبھاتی چلی جاتی ہے۔ ایک عورت کا روپ، بیوی، بیٹی یا بہن کے طور پر اہم ہے، لیکن ماں بننے کے بعد وہ عظمت کی ان بلندیوں تک رسائی حاصل کر لیتی کہ جنت اس کے قدموں میں رکھ دی جاتی ہے۔

11 مئی 2025 بروز اتوار پاکستان بھر میں "ماؤں کا عالمی دن” عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح یہاں بھی مختلف تقریبات، سیمینارز، کانفرنسیں اور آگاہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جن میں ماں کے عظیم کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ، ماؤں کو درپیش چیلنجز، تحفظات اور مسائل پر بات کی جا رہی ہے۔ صحت، تعلیم، معاشی خودمختاری، اور تحفظ جیسے موضوعات زیر بحث آ رہے ہیں، اور ان مسائل کے حل کے لیے قابلِ عمل تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ شہری علاقوں میں، ماؤں کی صحت ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ بچوں کی پیدائش میں سے 298 مائیں دورانِ حمل یا زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن تقریباً 20 سے زائد خواتین ایسی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں، جن کا بروقت علاج ممکن تھا۔ یہ شرح جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک جیسے نیپال (151)، بنگلہ دیش (123) اور سری لنکا (29) سے اب بھی زیادہ ہے۔

چند ماہ قبل سندھ کے مختلف اضلاع، خصوصاً تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ مقصد کچھ اور تھا، مگر وہاں کی زمینی حقیقتوں نے توجہ کا مرکز بدل دیا۔ ہر چہرے پر ایک دکھ بھری کہانی لکھی ہوئی تھی۔ صحت، تعلیم، پانی، غذا، روزگار، ٹرانسپورٹ . . غرضکہ ہر شعبے میں محرومی ہی محرومی نظر آئی۔ یہ علاقے ماؤں اور بچوں کے لیے زندہ رہنے کی جدوجہد کی تصویری جھلکیاں تھے۔

تھرپارکر جیسے پسماندہ علاقے میں صورتحال اور بھی تشویشناک ہے۔ یہاں ہر 1,000 بچوں کی پیدائش پر تقریباً 64 بچے پیدا ہوتے ہی یا کچھ ہی عرصے بعد زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں۔ اتنی زیادہ بچوں کی اموات کا مطلب یہ ہے کہ ہر خاندان میں ماں اور بچے کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سندھ کے ان علاقوں میں نصف سے زیادہ خواتین کو زچگی کے دوران کسی مستند ڈاکٹر یا ہسپتال کی سہولت میسر نہیں ہوتی، اور یہی محرومیاں اکثر ماں یا بچے کی جان لے لیتی ہیں۔ صاف پانی، مناسب غذا اور بنیادی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی اس المیے کو اور گہرا کر دیتی ہے۔ ماں کی آنکھوں کے سامنے بھوکے بچوں کی بے بسی، اور بچوں کے سامنے ان کی ماں کا بے جان وجود یہ سب کچھ برداشت سے باہر ہے۔ جذبات احساسات پر غالب آنے لگے تو میں نے کراچی واپس آجانے کو ہی بہتر جانا۔

آج ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ٹی وی شوز، اشتہارات، تحریریں . . . سب ماں کی عظمت کے گیت گاتے نظر آرہی ہیں، مگر عملی اقدامات کا فقدان تاحال برقرار ہے۔ ہاں، البتہ شہرقائد سے کچھ امید افزا خبریں ضرور سننے میں آرہی ہیں. . .کراچی کی مختلف کچی آبادیوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب سے متعلق ایک جامع پروگرام پر عمل درآمد جاری ہے۔ اس پروگرام کا اہم جزو سماجی متحرک سازی (Social Mobilization) بھی ہے، جس کے تحت محروم اور کمزور طبقات کو منظم کیا جا رہا ہے۔ مقامی سطح پر کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز (CBOs) اور واٹر، سینیٹیشن اینڈ ہائجین (WASH) کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں ماؤں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ مائیں نہ صرف اپنے گھروں کے اندر صفائی، صحت اور پانی کے بہتر استعمال کی سفیر بن رہی ہیں بلکہ کمیونٹی سطح پر آواز بلند کرنے، مسائل اجاگر کرنے اور ان کے حل کی کوششوں میں بھرپور شرکت کر رہی ہیں۔ ان کے ذریعے ایک مؤثر سوشل نیٹ ورک تشکیل پایا ہے جو خواتین کو بااختیار بنانے اور فیصلہ سازی میں شامل کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اب یہ مائیں نہ صرف گھریلو امور میں، بلکہ اپنی بستی کی ترقی میں بھی قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔

ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف خراج تحسین کے الفاظ کافی نہیں، بلکہ ہمیں ایسی پائیدار کوششوں کو فروغ دینا ہوگا جو ماں جیسے عظیم رشتے کو عزت، صحت، خوشحالی اور تحفظ فراہم کر سکیں تاکہ ہمارے معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو، اور نئی نسل کو ایک بہتر کل نصیب ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے