کالم

سولہویںدیہی خواتین کانفرنس۔۔۔!

khalid-khan

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے،اس کی ستر فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، اس میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔دیہی خواتین کھیتوں میںکام کرنے ، مویشی پالنے،امور خانہ داری،بچوں کی پرورش سمیت متعدد امور سرانجام دیتی ہیں لیکن اکثریت خواتین کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا ہے اور ان کی زمین کی ملکیت بھی نہیں ہوتی ہے۔دیہی خواتین کا معیشت خصوصاًزراعت میں اہم کردار ہے لیکن ان کی اپنی حالت اچھی نہیں ہوتی ہے، خواتین معاشی طور پر بھی خود مختیار نہیں ہوتی ہیں۔تعلیم میں بھی دیہی خواتین بہت پیچھے رہ جاتی ہیں،پاکستان میں خواندگی کا مجموعی تناسب تقریباً چالیس فی صد ہے، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختوانخواہ کے قبائلی علاقے میںشرح خواندگی پانچ سے دس فی صد کے درمیان ہے، اسی طرح صوبہ پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں لڑکیوں کی شرح خواندگی کم ہے اور سکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے۔پی ڈی ایچ ایس سروے کے مطابق پاکستان میںپانچ سال سے کم عمر کے 42فی صد بچوں کی پیدائش کا اندراج نہیں ہوا، اسی طرح صوبہ خیبر پختوانخواہ میں ضم فاٹا کے نئے اضلاع میں پیدائش کے اندراج کی شرح بھی بہت کم ہے۔ دیہی خواتین کی ا کثریت طبعی سہولیات سے محروم ہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں میں طبعی ادارے کم ہیں اور جو موجود ہیں،وہاں خواتین ڈاکٹر اور خواتین عملہ نہیں ہوتا ہے تو مخصوص سماجی روایات کے باعث خواتین کو علاج کےلئے مشکلات درپیش ہیں۔پاکستان میںخواتین سرجن ڈاکٹرز بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔دیہات میںبچپن کی شادی بھی اہم مسئلہ ہے،ابھی لڑکیوں کی تعلیم اور کھیل کود کے ایام ہوتے ہیں اوران کو سکول چھوڑواکر شادی کے بندھن میں باندھا جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں شاد ی کے بعدلڑکی کومختلف اقسام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ووٹ ہر شہری کا حق ہے لیکن دیہی خواتین کوالیکشن سے دور رکھنے کےلئے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں ، صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقہ پائی خیل میںکافی عرصے تک خواتین کو مکمل طور پر ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا لیکن پھرسماجی تنظیموں کی سخت اور طویل جدوجہد اور محنت سے خواتین کو جزوی طور پر ووٹ کی اجازت مل گئی۔پاکستان میں مجموعی طور پر دیہی خواتین کم ووٹ استعمال کرتی ہیں،ان کو سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ ناخواندگی اور ووٹ کے استعمال کے طریقہ کار سے جانکاری نہیں ہوتی ہے۔ دیہی خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کےلئے محترمہ ثمینہ نذیر اورپودا کی ٹیم کوشاں ہے، اس کے لئے وہ مختلف اقسام کی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں ،ہر سال دیہی خواتین کانفرنس کا نعقاد کرتے ہیں،جس میں پاکستان کے مختلف اضلاع سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دیہی خواتین تین روزہ کانفرنس میںبھرپور شرکت کرتی ہیں۔امسال پندرہ اکتوبر سے سترہ اکتوبر تک سولہویں سالانہ کانفرنس برائے دیہی خواتین کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان کے 141 اضلاع سے 2267خواتین بشمول معذور افراد کے ساتھ ساتھ اقلیتوں نے "پودا ” کی طرف سے تین روزہ دیہی خواتین لیڈر شپ کانفرنس میں شرکت کی، امسال کانفرنس کاسلوگن "پائیدار ترقی ، ماحول اور جمہوریت کےلئے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ” رکھا گیا۔سولہویں دیہی خواتین کانفرنس سے پودا کی چیئرپرسن ثمینہ نذیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”بعض علاقوں میں قانونی شناخت ، تعلیم ،شادی،تولیدی صحت،وراثت، سرکاری امداد، خدمات اور باوقار زندگی گذارنے سے آج بھی دیہی خواتین محروم ہیں،ان کی شناخت کا بنیادی حق پاکستان کا آئین انہیں فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیدائش کا اندراج کم عمری کی شادیاں ، چائلڈ لیبر اور بچوں کے ساتھ فوجداری نظا م انصاف میں بالغوں جیسا سلوک کرنے کے خطرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہ بنیادی انسانی حق ، صنفی مساوات کے حصول، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کےلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا،صنفی مساوات پائیدار ترقی کے اہداف کا پانچواںہدف ہے جس کا اطلاق تمام پائیدار ترقی کے اہداف میں ہوتا ہے۔” سینیٹرفرحت اللہ بابرنے دیہی خواتین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار کرنے، خواتین کو آئین سازی میں یکساں طور پر حصہ لینے،کم عمری کی شادیوں کی روک تھام اور ووٹ کا حق استعمال کرنے کےلئے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے ۔یورپی یونین کی سفیر” ڈاکٹر رینا کیونکا”نے دیہی خواتین کے اجتماع میں لڑکیوں کو تعلیم اور ہنر مند بنانے کےلئے اجتماعی کوشش پر زور دیا ۔ انھوں نے کہا کہ یورپی یونین صنفی مساوات، عمل جمہوریت، پائیدار ترقی اور امن کےلئے آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان میں ناروے کے سفیر”پر البرٹ الساز” نے سولہویں دیہی خواتین لیڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری کی شادیوں ، عدم مساوات اور غربت کو ختم کرنے کےلئے طویل المدتی کوشش کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں اطالوی سماجی تنظیم جو پاکستان میںزیتون پر کام کررہی ہے کہ نمائندے "مارکومارچٹی” نے زور دیا ہے کہ پاکستان میں زیتون کے پودے لگانے پر توجہ دیں کیونکہ پاکستان نوے فیصد زیتون بر آمد کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ زیتون کھانے سے کینسرسے بچاﺅ، آنکھوں کے امراض،وزن کم کرنے،نظام انہظام کی بہتری سمیت متعدد امراض سے بچاﺅ ممکن ہے اور اس کے ان گنت فوائد ہیں۔ لوک ورثہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد عزیر نے پودا کانفرنس میں پاکستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی دیہی خواتین کا خیرمقدم کیا۔انھوں نے پاکستان میں دیہی خواتین کا معیشت میں کردار اور شراکت کی تعریف کی۔خیبر پختونخواہ کے محتسب محترمہ رخشندہ ناز نے بھی سولہویں دیہی خواتین کی لیڈرشپ کانفرنس میںصنف پر مبنی تشدد اور کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر پودا محترمہ ثمینہ نذیر اور ان کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں،ان کی مہینوں جدجہد، محنت اور لگن سے سولہویں دیہی خواتین کانفرنس کا کامیاب انعقاد ممکن ہوا۔ یہ محض ایک کانفرنس نہیں تھی بلکہ یہ یونیورسٹی کا ایک باب تھا، اس کانفرنس کی بدولت شرکاءمیں نئی امنگ ،ولولہ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے ۔ کانفرنس کے بعددیہی خواتین نئے جذبے اور نئے حوصلے کے ساتھ دیہاتوں اورکھیتوں کا رخ کرتی ہیں ۔ دیہی خواتین ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں،ہم سب جو خوراک کھاتے ہیں،ا س میں ان کا اہم کردار ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں دیہی خواتین کا رول اپنی جگہ مسلمہ ہے۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے