کالم

سوچ کے رنگ

taiwar hussain

گزشتہ سے پیوستہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے تعلق اور رابطے ، زندگی کا مقصد بنانا چاہیے ، اس کا ایک واضح مفہوم ہونا ضروری ہے ،ہمیں سوچنا چاہیے کہ دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے ۔ کیا صرف پیسہ اور طرح طرح سے دولت کمانا بڑے گھر میں رہنا بے دریغ پیسہ خرچ کرنا دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنا طاقت کا حصول اور اس کا جائز و ناجائز اظہار کیا یہی زندگی کا مقصد ہے ۔ کبھی یہ بھی سوچنے کی زحمت کی ہے کہ جو ہستی اپنے غیب کے خزانوں سے ہمیں دولت دیگر آزماتی ہے وہ اسے چھین بھی سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے ہم ہی آنکھیں بند کرکے ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز ہوکر شب وروز گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں دینے والے کا شکر زبان سے اور عمل سے ظاہر نہیں ہوتا ۔ بے حسین طاری رہتی ہے ہم ایسا ماحول نہیں بناتے جہاں حقوق ، فرائض یکساں ادا ہوتے رہیں ، حقوق کی ادائیگی محبت پیدا کرتی ہے اور اس کی پامالی نفرت ، محبت اطاعت پیدا کرتی ہے اور نفرت بغاوت ، طاقتور حقوق ادا کرتا رہے تو طاقتور ہی رہتا ہے ، حقوق ادا نہ کرنے والا ظالم کہلاتا ہے ۔ ظالم سے طاقت چھین جاتی ہے یہ قدرت کا اصول ہے ، کبھی ہم نے سوچا ہے کہ بحیثیت انسان ہم کتنی وسعتیں ہیں ، احساس شعور آگہی کی وسعتیں انسان کا مقام یہ ہے کہ اللہ نے اپنے اظہار کیلئے بھی اسی انسان کو منخب کیا ، اپنی محبت کیلءبھی انسان کا دل چنا وہ آیا تو اسی انسان کے دل میں آیا ، یہی انسان وارث کائنات ہے ، سوزوگزار صرف انسان کے پاس ہے ۔ اللہ کا فضل ہو تو یہی انسان وارظ کائنات ہے ، ہم نے اللہ سے تعلق کو کم سے کم کردیا ہے یہی ہماری بدقسمتی ہے ، اب دل میں سوز نہیں دل مرتضیٰ نہیں زندگی صرف زندگہ رہنے اور ہرطرح کی آسائش کے ساتھ گزارنے کی بے شمار خواہشات کا نام بن گئی ہے ۔ زندگی اگر خواہشات کو پورا کرنے کی تگ ودو میں گزرے تو موت یقینا مصیبت بن کر آتی ہے ، ہم مارے جاتے ہیں مرتے نہیں ، ہم اس زندگی کی نعمت کو رائیگاں ہونے سے کیوں نہیں بچاتے ، ہم ایسا وقت کیوں نہیں تلاش کرتے جب دل کی گہرائیوں سے سجدہ ریز ہو ، اللہ سے مخاطب ہو اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور بخشیش کی آرزو کریں ، کبھی غور کیا ہم پیدا ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے جوانی طاقت تکبر نہ جانے کیا کیا لیکن پھر کمزو پڑجاتے ہیں ایسا کیوں اور کیسے ہوجاتا ہے اور پھر دنیا سے جانے کا سفر شروع ہوجاتا ہے ، سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوتا خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ چلے گئے جو کچھ کمایا یہی رہ گیا جو کچھ عمل کیا اس کا حساب اس مالک کو دینا ہے جس نے ایک مدت کیلئے دنیا میں بھیجا کثترت مقاصد ناکامی کا راستہ نہ دکھائے ، سوچنے اور عمل کرنے کا یہی وقت ہے ،سرکار دوعالم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا کامیاب زندگی کی ضمنت ہے ، ہماری زندگی تو شکوے شکائیتوں اور گلہ بیان کرنے میں گزرتی ہے ، ہر شخص دوسروں سے شکایت رکھتا ہے اور بیان کرتا رہتا ہے ، اگر ہم اس کیفیت سے آزاد ہوجائیں تو شائید ذات اور شخصیت میں واضح تبدیلی آجائے یہ جو وقت میسر ہے اسے کار آمد بنانا ہے بنانے میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ باطنی کائنات کی طرف غور کرنے کا وقت کیوں میسر نہیں ہوتا ، شاید ہم وت ہی نہیں دیتے ، باطنی کائنات دعاو¿ں کی کائنات ہے ۔ دعا نصیب کو بدل دیتی ہے ، ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے ، زمانے بدل جاتے ہیں نصٰب بدل روح بیدا ہوجاتی ہے ، راتوں کے پچھلے پہر نصیب جاگنے کا وسیلہ بنتے ہیں ، منزل نہیں سفر درسفر سلسلہ جاری رہتا ہے ، غیب حاضر محسوس ہوتا ہے اور حاضر غائن خوش نصیبوں کو یہ واقعات ملتے ہیں ۔ ہم کیوں غور نہیں کرتے ہم مالک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کے کرم فضل اور رحمت کیلئے صاحب اقتدار اور اختیار کے سامنے جبیں سائی کو عزت اور وقار سمجھتے ہیں ، ہم اپنے آپ کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں ، غور اور فکر جو اس کائنات کا لازمی جز و ہے اس کے قریب نہیں آتے ، اس کائنات میں اشکوں کے چراغوں سے روشنی کی جائے تو ظاہر اور باطن منور ہوتے ہیں ، روح کی کائنات بیدا ہو تو جینے کا لطف ہی اور ہوجاتا ہے ، نصیب بیدار ہوجائے تو منشائے الٰہی کی تلاش آسان ہوجاتی ہے ، سونچا شروع کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri