اداریہ کالم

سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمدجمہوریت کے مفاد میں ہے

idaria

گزشتہ روزسپریم کورٹ کاتاریخی فیصلہ آگیا ہے اب اس پربحث یقیناً کسی کے مفاد میں نہیں یہ عدالت عظمیٰ کافیصلہ ہے اس پرسب کو عمل کرنا چاہیے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وفاقی کابینہ نے انتخابات کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا،نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے لہٰذا کابینہ اسے مسترد کرتی ہے، کابینہ اجلاس میں ای سی سی کے فیصلوں کی منظوری دی گئی،اجلاس میں قومی اسپورٹس پالیسی ڈیفر کردی گئی اور سیاسی امور پر گفتگو کا آغاز ہوا، سیکرٹری اور تمام سرکاری افسران اجلاس سے باہر چلے گئے،اجلاس میں الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کی صورت حال پر غور کیا گیا، شرکا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا،وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اراکین نے اتفاق کیا کہ فیصلہ قابل عمل نہیں ہے، آئین اور قانون سے انحراف کر کے فیصلہ دیا گیا ہے، فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ سمیت دیگر فورمز پر بھرپور آواز اٹھائی جائے گی۔دوسری جانب قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی تحقیقات کے حوالے ریفرنس کی فوری سماعت ہونی چاہیے۔ ذوالفقار بھٹو کے عدالتی قتل کا ریفرنس 12سال سے عدالت میں زیر التوا ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے، فیصلہ دینے والے ججز میں سے ایک جج نے بعد میں تسلیم بھی کیا، ذوالفقار علی بھٹو 1973 کے آئین کے بانیوں میں سے ہیں، یہ پاکستان کی تاریخی خدمت تھی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔4اپریل کو ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل ہوا اور 4اپریل کو پھر آئین کا قتل ہوا، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھٹو شہید کا عدالتی قتل ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو پوری دنیا نے "عدالتی قتل” قرار دیا۔ادھرروزنیوزکے مقبول ترین پروگرام ”سچی بات “میں ایس کے نیازی کے سوالوں کاجواب دیتے ہوئے جسٹس(ر)وجیہہ الدین نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کلیئر فیصلہ دیدیا،عوام کی بالادستی کی بات کرنیوالے کیسے فیصلے کو ردکرسکتے ہیں،اگر عدالت کا فیصلہ نہ مانا گیا تو قانون اپنا راستہ بنائیگا،یوسف رضا گیلانی کی مثال موجود ہے،حکومت ریویو کی درخواست دے سکتی ہے۔ ایس کے نیازی نے سوال کیا کہ کابینہ نے جو تحفظات کا اظہار کیا ہے وہ کیسے دورہونگے ؟جسٹس(ر)وجیہہ الدین نے جواب دیا کہ عوام کی بالادستی کی بات کرنیوالے کیسے فیصلے کو ردکرسکتے ہیں ، حکومت ریویو کی درخواست دے سکتی ہے ، برسراقتدار جماعتیں اس طرح کا رویہ رکھیں گی تو اس کا بڑا نقصان ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ عدالت میں جو ججز میں بدمزگی ہوئی اس کو احسن طریقے سے کنٹرول کیاگیا،کیس کی سماعت کی وجہ سے الیکشن کی تاریخ میں 14دن کی تاخیرہوئی ،صرف 6پیجز پر مشتمل فیصلے میں تمام معاملات کا احاطہ کیا گیا ، ایس کے نیازی نے سوال کیا کہ اگر سیٹ اپ یہی چلتا ہے تو کیا یہ غیر آئینی نہیں ہوگا؟جس کے جواب میں جسٹس (ر)وجیہہ الدین نے کہا کہ آئین کے مطابق نگران حکومت 90سے 91دن داخل ہوتے ہی غیر آئینی ہوجائیگی،اس طرح کے رویے اور اقدامات سے غیر آئینی قوتوں کو موقع فراہم کیا جارہا،ایس کے نیازی نے سوال کیا کہ آئین کی گولڈن جوبلی پر آئین کے برخلاف اقداما ت کیوں؟ کیا حکمران توہین عدالت کے مرتکب ہوسکتے ہیں؟ جسٹس (ر)وجیہہ الدین نے جواب دیا کہ قانون اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے ، یوسف رضا گیلانی کی مثال موجود، عدالت کے فیصلے کو مسترد کرنے کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا ، الیکشن کمیشن کی انتخابات کرانے کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری نہیں ، عدالت دو اسمبلیوں کی تحلیل کے جائز و ناجائز ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے ، اسی پیرائے میں عدالت عمران خان کی حکومت گرانے کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ ان کی کرسیاں سیف ہیں تو وہ غلط فہمی سے باہر نکلیں ، کبھی75سال میں ایسے حالات نہیں دیکھے جو اب بنے ہوئے ہیں ،حکمران ہوش کے ناخن لیں ، الیکشن لڑنے سے پہلے ہارکربیٹھے ہیں ، مسلم لیگ ن پنجاب میں اپنے حامیوں کو مسلسل مایوس کررہی۔پروگرام سچی بات میں چیف ایڈیٹرپاکستان گروپ آف نیوز پیپرز ایس کے نیازی نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کلیئر، عمل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، ماضی کے تلخ تجربات ہمارے سامنے موجود ہیں ، آگے حالات کیا بنتے ہیں اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا،اگر پیسے کا بندوبست نہیں ہوتا تو حکومت کا کوئی تو پلان ہوگا،حکومت کا عوام میں تاثر منفی جارہا ہے ، جمہوریت اور آئین کا تقاضا ہے کہ الیکشن بروقت ہوں ، ایسے الیکشن ہوں کہ کوئی بھی ان کی شفافیت پر انگلی نہ اٹھائے ،الیکشن کمیشن سے تعاون کیا جائے تو وہ الیکشن کرائے گی ،نگران حکومت اپنی مدت کے بعد چلی جائیگی۔
سٹیٹ بینک کی نئی مانیٹرنگ پالیسی
مرکزی بینک نے مانیٹری پالیسی سے متعلق اعلامیہ جاری کردیا جس کے مطابق مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں 100بیسس پوائنٹس کا اضافہ کردیا،پالیسی ریٹ اضافے کے بعد 21فیصد کی ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر آگیا، اس سے قبل 2مارچ کو 300بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا، 33روز کے دورانیے میں شرح سود 4فیصد تک بڑھا دی گئی ہے،گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پالیسی ریٹ 14.75فیصد رہا تھا، رواں مالی سال کے دوران اب تک شرح سود میں 6.25فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔دوسری جانب عالمی بینک نے پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ جاری کر دی۔عالمی بینک نے پاکستان میں معاشی بحران پر قابو پانے کےلئے پائیدار اصلاحات پر زور دیا ہے۔ پاکستان کو سست معاشی شرح نمو، بلند مہنگائی کا سامنا ہے، موجودہ مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو صرف 0.4فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ جون تک مہنگائی 29.5 فیصد کی بلند سطح پر رہے گی۔ مہنگائی کی وجہ توانائی اورخوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے، سست معاشی سرگرمیوں کی وجہ اعتماد کا فقدان ہے، سست معاشی سرگرمیوں کی وجہ درآمدات پر پابندیاں، سیلاب کی تباہی ہے۔ سخت مالی پالیسی تاخیر سے اختیار کی گئی، ایکسچینج ریٹ کی غیر رسمی حد مقرر کرنے سے زرمبادلہ ذخائر میں کمی آئی، سخت عالمی شرائط کی وجہ سے پاکستان کو سرمائے تک رسائی میں کمی آئی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے جائزے کی تکمیل میں تاخیر کا سامنا ہے، پاکستان کو قرضوں میں اضافے اور زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی کا سامنا ہے۔
ایران اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کانیاموڑ
خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے پیشِ نظر ایران نے 2016 کے بعد پہلی بار متحدہ عرب امارات میں سفیر تعینات کردیا ہے۔یہ اقدام متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے عندیے کے بعد سامنے آیا ہے، گزشتہ برس متحدہ عرب امارات کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ایران میں سفیر بھیجنے پر غور کر رہا ہے ۔ 2016 کے بعدسے سعودی عرب اور ایران کے باہمی تعلقات منقطع تھے تاہم گزشتہ ماہ چین کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بحال ہوئے تو یو اے ای اور ایران نے تعلقات بحال کرنے اور سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کرلیا۔متحدہ عرب امارات کے ایران دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان کاروباری اور تجارتی تعلقات ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں، دبئی طویل عرصے سے بیرونی دنیا سے ایران کے اہم روابط کا ذریعہ رہا ہے ۔ تازہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک چین کی ثالثی میں ہونےوالے معاہدے کے تحت اپنے سفارتی میل جول بڑھانے کےلئے مصروف عمل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے