دلچسپ اور عجیب

سیاستدان کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے

حکمرانوں کی سوچ اپنی حد تک درست مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقہ کےلئے دووقت کی روٹی کمانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئے گنا اضافہ ہوچکا ہے اور غریب ڈیفالٹ کرگیاہے۔ حکمرانی کی سوچ انتہائی فرسودہ اور پوری پاکستانی قوم کو کشکول اٹھانے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہیں ، حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں سے بیزار ہیں، ہر گزرتے دن کیساتھ اذیت ان کی برداشت سے باہر ہورہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہے ، تیل گراں ہورہا ہے ، آئی ایم ایف، عالمی بینک دباﺅ بھی ڈالتے ہیں۔ لیکن قوموں پر ایسے وقت آتے ہیں تو قومیں متبادل راستے تلاش کرتی ہیں، مہنگائی کا بوجھ بانٹتی ہیں ۔ سارا بارگراں پہلے سے بوجھ تلے دبے 98 فیصد کی طرف نہیں دھکیل دیتیں ۔ 98 فیصد غریب پاکستانیوں کا جینا پہلے ہی بہت محال تھا اب نا ممکن ہورہا ہے ، غربت کی لکیر سے نیچے ہجوم بڑھ رہا ہے ۔ صرف تیل کی قیمتوں کا ہی مسئلہ نہیں ،بلکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی روزبروزاضافے کی منظوری دی جا تی ہے ۔ دوسری طرف ڈالر نیچے آنے کے باوجود پھراوپرچلاجاتاہے۔ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملکی قرضوں میں اب روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے ۔ روپے کی قدرکی کمی کی وجہ سے قوم پر چڑھ چکے ہیں ،روپے کی بے قدری کی وجہ سے اب دیگر کئی شعبوں میں بھی بحران سراٹھانے لگے ہیں۔ کیا نگران حکومت سوچنے سمجھنے سے عاری ہوچکی ہے، چند ماہ بعد سیاستدان کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی باروری سرنگوں کا بہانہ آخر کب تک چلے گا۔ مان لیا کہ وہ بارودی سرنگیں بچھا گئے ، اب تو اتنی مہنگائی ہوگئی ہے اور اتنی تیزی سے ہورہی ہے کہ چلنے میں بھی مشکل پیدا کررہے ہیں۔ آپ جب تحریک عدم اعتماد لے کر آرہے تھے اور اقتدار کی مسندوں پر آپ کی لالچ بھری نظریں تھیں اسوقت آپ کو ان بارودی سرنگوں کا علم نہیں تھا۔ آئی ایم ایف سے شوکت ترین کیا باتیں کررہے تھے ۔ کیامعاہدہ ہورہا تھا یہ سب آپ کے فہم میں نہیں تھا۔ کیا ملکی معیشت کو کنٹرول کرنے کا طریقہ صرف یہی تھا کہ جو آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے ۔ یعنی غریبوں کو ریلیف دینے والی سبسڈیز کا خاتمہ اور ٹیکسوں کی شرح میں نہ صرف اضافہ بلکہ مزید ٹیکس بھی عائد کردیے جائیں ۔ درحقیقت یہ راستہ مزید تباہی کا راستہ ہے اور بہت تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنے والا بھی ہے کیونکہ غریبوں کو ریلیف نہ دینے اور ٹیکسوں میں اضافے سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ ٹیکسوں کے باعث کاروبار بھی تباہ ہو جاتے ہیں ۔ صنعتیں بند ہو جاتی ہیں اور نئی سرمایہ کاری بھی نہیں آتی۔ ویسے بھی آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے کوئی سروکار نہیں ، وہ اس سے کہیں زیادہ پیسے وصول کر چکا ہے جو اس نے ہمیں اب تک دیے ہیں ۔ وہ صرف عالمی طاقتوں کے پاکستان کے بارے میں اہداف کے حصول کےلئے حالات پیدا کر رہا ہے ۔ جب تک ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے آئی ایم ایف پر انحصار کرتے اور اس کی ڈکٹیشن لیتے رہیں گے ، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے بلکہ مزید دھنستے جائیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے