کالم

سیاست ۔ادارے اور اب ڈیمج کنٹرول ؟

latif khokhar

ایک اہم تعیناتی پر گزشتہ کئی ماہ سے پورے ملک پر ایک ہیجانی کیفیت طاری رہی۔ ایک نام ہو، چھ ہوں یا دس، سب کے سب مشکوک بنا دئے گئے ۔ پسند ناپسند کا کھیل بنا کر اس سارے پراسس کو ایک ایسے کمتر درجے کا تاثر دیا گیا کہ جیسے کسی آسامی پر کوئی بھرتی ہونی ہے اور ملک کا سب سے طاقتور ترین شخص یعنی اس معاملے میں وزیراعظم صاحب جسے آدھا ملک پیار سے امپورٹڈ کا خطاب بھی دیتا ہے وہ ماشااللہ کسی ایک یا دو کے نام پر ٹک لگائے گا تو وہ جیسے پاس اور باقی فیل ہو جائیں گے ۔ ماضی میں تو ایسے کبھی حالات نہیں دیکھے گئے لیکن افسوس ہمارے کئی ہر دلعزیز وںنے خود اپنا وقار کھونے میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دنیا ہم پر ہنستی رہی، لگتا تھا پروموشن بورڈ ہو رہا ہے اور آئی جی صاحب ایس پی صاحبان کے انٹرویو لینے جا رہے ہیں۔ حالات اتنے بھی پتلے نہیں تھے کبھی۔ یہ طریقہ انتہائی شرمسار اور disgraceful ہے، آئندہ ایسا موقع آنے سے پہلے ہی ضروری ترمیم کر کے اسے واضح بلا شک و شبہ سینارٹی کے اصولوں پر اگلی کمان سینئر موسٹ جرنیل کو سنبھالنے کا حق دینا چاہیے جس سے نہ کوئی بد مزگی پیدا ہو گی اور نہ ہی اس لسٹ میں پیچھے رہ جانے والے انتہائی قیمتی جرنیل دل برداشتہ ہو کر وقت سے پہلے گھروں کو چلے جائیں گے۔ یہی تو ایک ادارہ رہ گیا ہے جس سے پوری قوم کی امیدیں جڑی ہیں۔ سینیئر ترین کیوں اپنے سے جونیئرز کی لائن میں لگا دیا جاتا ہے، میرے خیال میں یہ ہتک ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں مختلف وزیراعظم صاحبان نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے ذریعے کہیں نیچے کے جرنیلوں کو سینئرز پر لا بٹھایا، جس سے نا صرف حقدار کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ عام عوام بھی اس سسٹم سے مایوس ہوتے ہیں اور عام معاشرے میں بد دلی پھیلی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رہ جانے والے جرنیل اپنی عزت و وقار کی خاطر گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ یہ سیدھا سیدھا میرٹ کا قتل ہوتا ہے اور اس ذاتی پسند ناپسند کے اس کھیل کو فوری بند ہونا چاہئے۔ کوئی فرد بھی ناگزیر نہیں ہوتا، یہ محض فریب کاریاں ہیں جو اپنی من مرضی چلانے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں۔ آپ دیکھ لیں گے جس دن سینئر موسٹ جرنیل کو آرمی چیف کی روایت ڈال دی گئی ادارہ مکمل طور پر پرسکون ہو جائیگا، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنی بند اور پروفیشنلزازم ہر طرف چھا جائیگا۔ ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ سے جرنیل تک اطمینان سے اپنے کیرئیر پر رواں دواں رہیں گے اور حقدار کو اسکا اسکی جائز باری پر حق ملتا رہے گا۔ عدلیہ اسکی ایک زندہ مثال ہے ، جہاں اب سینئر موسٹ ہی چیف جسٹس بنتے ہیں۔ادھر بڑے صاحب نے جاتے ہوئے اپنے خطاب میں بہت کچھ کہہ بھی دیا اور سنا بھی دیا، شاید اس کی ضرورت نہ تھی ۔ بڑے صاحب نے انکشاف کیا اور فرمایا کہ ادارہ پچھلے سال کی فروری سے سیاست سے کنارہ کش ہو چکا ہے۔ جناب نے اور یقینا آپ کی صاف گوئی اور بہادری پر آپکو سیلوٹ بنتاہے۔ لیکن ذرا غور فرمائیں 71 کی جنگ میں فوج کے کردار اور سقوط ڈھاکہ پر آپ نے قوم کو جو نئی تاریخ پڑھائی ہے، کسی حد تک درست بھی ہے، یہ بات آپکی درست ہے کہ سقوط ڈھاکہ کی ساری ذمہ داری فوج کی نہیں تھی ،ملک کے دو ٹوٹے کرنے میں زیادہ کردار سیاسی ہٹ دھرمی، ضد اور انا تھی۔ فوج تو واقعی حکم کی پابند تھی لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ اسوقت کا حاکم کون تھا اور حکم کس نے چلایا تھا ہتھیار ڈالنے کا؟۔ آپ نے تو حالیہ رجیم چینج کے حالات واقعات کی سیاست پر تو گویا یلغار کر دی۔ اب مختلف ذرائع سے ڈیمج کنٹرول کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، کبھی فلاں میر،کبھی لفافہ عباسی اور کبھی ق لیگی رہنماو¿ں کے بل بوتے پر ، لیکن یہ سب بے کار اور بے سود ہے، اب پچھتائیں کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri