نواز شریف کی آمد اور ہمہ جہت رعایات کی بارش کو دیکھ کر دیدہ و دل راہ میں بچھانے والوں کی ذہنی حالت پر بیک وقت ترس آتا اور تشویش ہوتی ہے ۔اس ترس اور تشویش کے منظر میں رہی سہی کسر نواز شریف کے سیالکوٹ میں خطاب اور گفتگو نے پوری کر دی ہے ۔وہ خود کو ملنے والی غیر موثر سزاو¿ں کے ذمہ داروں کو کوس رہے تھے،ان کی تادیب کے اشارے دے رہے تھے ،اگر اشارہ اس وقت کی عدلیہ کے فیصلوں کی طرف تھا تو پھر نواز شریف لازمی طور پر ان فیصلوں کے محرکات اور محرمات کو بھی اچھی طرح سے جانتے اور ہنوز پیرو مرشد مانتے ہیں نظر آ رہے ہیں۔ایسے میں وہ اپنی زہر بیانی یا "حق گوئی و بے باکی” کو روکنے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں۔ کسی کے وعدہ فردا پرملک میں واپس آنے سے پہلے انہوں نے شاید پاکستان کی حقیقی صورتحال کا صحیح اندازہ نہیں کیا تھا ،ورنہ انہیں اندازہ ہو جاتا کہ آج اکیسویں صدی کے پاکستان میں پولنگ بوتھ تک جا کر ووٹ دینے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی ہے ، اور ان نوجوانوں کی نفسیات سے کھیلنا جنرل ضیا الحق کے سدھائے اور چلائے ہوئے سیاست دان نما لوگوں کے بس سے باہر نکل چکا ہے ۔ستم ظریف کہتا ہے کہ نواز شریف توڑے دار بندوق اور چلے ہوئے کارتوس کندھے سے لٹکا کر ریاست و سیاست کے جنگل میں شکار پر نکلے ہیں۔انکے کریڈٹ پر تین بار وزیر اعظم رہ کر اور بالآخر ناکام ہو کر نکالے جانے کا تجربہ اور اسی تجربے میں ناکام رہنے والے ساتھیوں کا گروہ ہے۔ اس گروہ میں ایک سے ایک آئٹم اپنے ناکام تجربات سمیت موجود ہے۔ان میں سے ایک جو خود کو ارسطو کہلوانے کے شوقین احسن اقبال ہیں۔ احسن اقبال نے اپنی سیاسی دیانت اور مفروضہ فراست کا اظہار کرتے ہوئے پوری قوم کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور عدلیہ نے اپنے اپنے ماضی سے بہت سارا سبق سیکھ لیا ہے،اور اسی سیکھے ہوئے سبق کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ نے پکا فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔قیاس چاہتا ہے کہ یہ بات انہیںاسٹیبلشمنٹ نے پاس بلا کر خود بتائی ہو گی۔لیکن ستم ظریف کوئی خیال ظاہر کرتا ہے ۔ ستم ظریف کا کہنا ہے کہ احسن اقبال کا موجودہ بیان ن لیگ کےلئے اسٹیبلشمنٹ کے التفات بے پایاں کا کھلا اعتراف ہے۔ احسن اقبال اس قوال پارٹی میں اکیلے نہیں، نارووال کے قریب ایک زیادہ بڑا شہر سیالکوٹ بھی واقع ہے ۔جہاں کے خواجہ آصف بھی ڈارلنگ تصور کیے جاتے ہیں۔نہایت درجہ کاریگرسیاستدان ہیں۔خواجہ آصف دراز دست ہونے کےساتھ زبان دراز بھی شمار ہوتے ہیں ۔اب تک ان کی سب سے نمایاں خدمت اقلیم سیاست میں شرم اور حیا کی ضرورت و اہمیت کا برملا اعلان ہے ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ وہ مذکورہ صفات عالیہ کا اطلاق اپنی ذات والا صفات پر نہیں کرتے۔ خواجہ آصف میاں برادران کی طرح اپنے مفادات کے چوکس نگران اور اسکے لیے کچھ بھی کرنے کےلئے ہمیشہ آمادہ و تیار رہتے ہیں۔خواجہ آصف کی تازہ ترین تحقیق کا تعلق غالباً عالم رویا سے معلوم ہوتا ہے ۔ان کے اشغال کو دیکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بہت بڑی روحانی شخصیت ہیں،لیکن عالم جوش جنوں میں وہ کچھ بھی کہہ گزرتے ہیں۔ان کی تازہ تحقیق کے مطابق "اللہ تعالیٰ نواز شریف سے کوئی کام لینا چاہتا ہے۔اب اس تحقیقی بیان کے بطن سے بندہ کیامطلب اخذ کرے ۔چونکہ انہیں ایک کشادہ راستے اور پیشگی یقین دہانیوں کے بعد وطن واپس آنے پر آمادہ کیا گیا ہے ،تو اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نواز شریف سے کوئی عام نہیں ،بلکہ کوئی نہایت خاص الخاص کام لینا چاہتا ہے۔ خواجہ آصف چونکہ سیالکوٹ جیسے صنعتی شہر سے ووٹ طلب کرتے ہیں ،تو وہ ملکی معیشت پر بات کرنا بھی اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں۔انہوں نے ایک تجربہ کار نالائق وزیر کی طرح کوئی دعویٰ کرنے کی بجائے سیالکوٹ کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف بتا دیا کہ بھائی لوگو اور پیارے نوجوانو پاکستان کی معیشت دو سال میں ناصرف کھڑی ہوگی بلکہ بھاگے گی ۔انہوں نے حیران و پریشان نوجوانوں کو یہ نہیں بتایا ملکی معیشت کو صرف کھڑا ہونے کےلئے دو سال کی مدت کیوں درکار ہو گی؟ ستم ظریف کہتا ہے کہ ن لیگ کی پالیسی کے مطابق کسی حوالے سے کوئی بڑا دعویٰ نہیں کیا جائے گا ۔مملکت خداداد کے معاملات خدا نے خود ٹھیک کرنے ہیں،لہٰذا گنہگار انسانوں کو ،خاص طور پر ن لیگیوں کو اپنے اپنے حالات و معاملات کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔نمونے اور مثال کےلئے شہباز شریف کی ڈیڑھ سالہ کاکردگی کو سامنے رکھنا چاہیے ۔جس طرح شہباز شریف ، نواز شریف سمدھی اسحاق ڈار اور دیگر ہمنواو¿ں نے اپنے اپنے مالی معاملات اور مقدمات درست کرانے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا ، بالکل اسی طرح اگر ن لیگ کو چوتھی بار حکومت میں آنے کا موقع مل گیا تو یہ سوچ کر کہ اسکے بعد کبھی بھی موقع نہیں ملے گا، جو ہاتھ میں آئے پکڑ کر جیب میں ڈال لیا جائے ۔نواز شریف کو اب تک اڑھائی تین سال سے زیادہ حکومت کرنے کا تجربہ نہیں ہوا۔اور ایسا ہوا بھی تین بار مسلسل، لہٰذا اسی تجربے کو سامنے رکھتے ہوے اب کی بار خواجہ آصف نے دوسال کی بات کی ہے ،یعنی معیشت کو کھڑا ہونے میں دوسال تک لگ جائیں گے۔اور بقول ستم ظریف کھڑی معیشت والا ملک پھر نواز شریف کے پاس رہنا ویسے بھی پسند نہیں کرتا، وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ میاں خاندان اپنے دور اقتدار میں ہمیشہ معاشی طور پر پاکستان سے زیادہ ترقی کر جاتے ہیں۔ یہ امتیازمیاں برادران کوحاصل ہے ۔ایسے ہنر مند سیاستدانوں سے انسانوں کی کیا مجال کہ کوئی کام لے سکیں، ایسا صرف اللہ تعالیٰ ہی سمجھ سکتا ہے۔