کالم

سیاسی شعور کی ضرورت !

ایک ایسے ماحول جس میں ہم سانس لے رہے ہیںاس دوران سیاسی شعور کی ضرورت ہے۔ نظام کی خرابی فساد کی جڑ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی تاریخ یہ شہادت دیتی ہے کہ اولوالعزم ہستیوں نے ہمیشہ نظام ظلم کے خلاف جد وجہد کی ہے اور انقلاب برپا کر کے مظلوموں کو ظالمانہ نظام سے تباہ کاریوں سے نجات دلائی ہے ۔ ظالمانہ نظام موجود ہو اور اس میں پیوند کاری کر کے اصلاح کی جائے یہ ناممکن بات ہے جو نظام طبقات پیدا کرے وہ قابل اصلاح نہیں ہوتا بلکہ منہدم کرنے کے قابل ہوتا ہے خیر وشر کی جنگ تو ہمیشہ سے ہے لیکن جب ہر طرف شر ہی شر ہو تو اس کا مٹانا فرض ہوجاتاہے۔ بے وصول طرزمعاشرت ، بے ہنگم ذندگی اور طبقات پر مبنی معاشرہ غیر اخلاقی تہذیب کو جنم دیتا ہے اور اس سے معاشرے کا ہر فرد متائثر ہوجاتا ہے اور اسکے اخلاق تباہ ہوجاتے ہیں اور جہاں طبقات ہوتے ہیں وہاں مایوسی اور عیاشی کے جراثیم پھیل جاتے ہیں اور ظالم اورمظلوم دو قسم کے طبقے پیدا ہوجاتے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے اور مظلوم کا تعلق جس مذہب سے بھی ہو اس کی حمایت فطرت انسانی ہے۔ اسلام ہر ظلم کا انکار کرتا ہے اور ہر مظلوم کی حمایت ہر انسان کا فرض قرار پاتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت میں قابل اصلاح نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی مرمت کر کے اسکی اصلاح کی جائے موجودہ دور کی تباہ کاریوں کی بنیادسرمایہ دارانہ نظام اس نظام کی بقا جنگوں جنگوں کے ساتھ وابستہ ہے دنیا میں جنگ ہوگی اور ممالک آپس میں جنگ پر آمادہ ہونگے تو اس نظام کی چکی چلتی رہیگی اسلئے یہ نظام دنیا میں امن نہیں چاہتا ہے اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل امریکہ ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑی اندر سے کھوکھلی ہیں اور یہ حالت نزع کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے روس چین اور دوسرے علاقائی ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنے سے سامراجی کی نظام کی نیندیں حرام ہوگئی ہے اور اسی بنا پر وہ پیچ وتاب کھارہا ہے موت کا عالمی سوداگر جنوبی ایشیاءمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے یہ اسے اپنے آخری انجام کی طرف لے جارہا ہے اور حالات جو پلٹا کھارہے ہیں اسکے مطابق اسلحہ کا بیوپاری اب تنہا ہوتا جارہا اور اب دہشت گردی کے خلاف مﺅثر اپریشن بھی اسکے لئے گلے کی ہڈی ثابت ہورہا ہے یہ اب کوئی راز نہیں کہ دہشت گرد کس کے پیدا کردہ ہیں اور ان کو اسلحہ کون دے رہا ہے؟۔ سویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد ہمارے ہاں کی غالب اکثریت پھولے نہیں سمارہے تھے اور لڈو وغیرہ بانٹ کر اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ سرخ سیلاب رک گیا ہے اورسویت یونین ٹوٹ چکا ہے سامراجی میڈیا سویت یونین کے تحلیل کے بعد خوب شور مچا رہا تھا لیکن یہ ایک دیوانے کا خواب ثابت ہوا باشعور حلقے تو اس وقت بھی یہ کہ رہے تھے کہ یہ سویت یونین کی شکست نہیں ہے بلکہ گورباچوف اور کی حکمت عملی ہے اس کو کسی بھی طور پر سویت یونین کا اختتام نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ یہ تو اس خطے کے ممالک کی تنظیم نو ہے اور اب یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ روس جنگ سے اپنے دامن کو بچا کر ایک مستحکم ملک بن گیا ہے اور سویت ریجن کے ممالک کا اعتماد اب پہلے سب بھی بڑ کر روس پر قائم ہے اور اس حکمت عملی کے مطابق روس کے مشرقی اور مغربی ممالک کے ساتھ معاہدات اور وہاں کی منڈیوں تک رسائی امریکیوں کیلئے سوہان روح بنتا جارہاہے جنگ سے دور رہ کر روس نہ اندرونی طور پر مستحکم ہوگیا ہے بلکہ بین الاقوامی دنیا کے ساتھ اسکے سیاسی اور معاشی معاہدات بھی امریکہ کیلئے موت ثابت ہورہے ہیں اور اس خطے کے اہم ملک چین کا کردار اور وہاں کی معاشی ترقی اور ان ممالک کی آپس میں قربت اور شنگھائی تعاون تنظیم، بحیرہ کیسپین کے ممالک کی تنظیم، یورپ رشیاپارٹنرشپ، نیٹو رشیا پارٹنر شپ اور جی ایٹ جیسے اتحاد اور معاہدات روس کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں اور مستقبل کا جو منظر نامہ بننے والا ہے اس میں ان معاہدات کا بڑا عمل دخل ہوگا ۔پاکستان کے بھادر عوام ہیں اور نہایت غیور ہیں لیکن وہ جس نظام کے زیر اثر ہیں وہ سرمایہ دارانہ ہے اور سرمایہ پرستی کے جراثیم نے ہر چیز کو آلودہ کر دیا ہے اب ضرورت ہے اس نظام سے نجات حاصل کی جائے اور ایک ایسا سسٹم قائم کیا جائے جو عادلانہ ہو اور اس میں مساوات سب کیلئے ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام میں شخصیات کے آنے جانے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والا دوسرے سے بدتر ہوتا ہے ۔ اس وقت جدوجہد کسی شخصیات اور افراد کے آنے جانے کےلئے جدوجہد نہیں ہونی چائیے بلکہ ملک عزیز میں سب جد وجہد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونا چائیے کیونکہ یہ نظام انسانیت کا دشمن ہے اور یہ نظام نہ انسان کے اخلاق خراب کر کے اسے خدا پرستی سے دور کر کے سرمایہ پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ نظام انسان دوستی کا بھی دشمن نظام ہے چونکہ اس نظام کی بقاءظلم سے وابستہ ہے اور یہ نظام فساد اور طبقات پیدا کرتا ہے اس لئے ساری جدوجہد اس نظام کےخلاف ہونی چائیے کیونکہ خرابی نظام میں ہے!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے