کالم

شہباز شریف کی انتخابی مہم کا آغاز

پتھر پر پیہم گرنے والا پانی کا قطرہ ہر پتھر پر موثر نہیں ہوتا،صرف اپنی جگہ قائم رہنے والے پتھر ہی قطرے کی تاثیر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔پاکستان میں گزشتہ پچھتر سال سے یہاں کی بے نوا مگر فراواں مخلوق خدا اپنی آرزوئیں اور امیدیں اپنے پتھر دل اور سنگ صفت لیڈروں پر قطرہ قطرہ ٹپکا رہے ہیں۔ابھی تک آرزوں اور امیدوں کے یہ قطرے کسی بھی پتھر میں رحمدلی ، لطف اور مروت کا ایک ننھا سا سوراخ بھی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔وجہ اس کی صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ؛ بیشتر پتھر اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتے، ہلکا سا زلزلہ بھی انہیں لڑھکا دیتا ہے ۔ ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق جو چند پتھر اپنی جگہ جمے رہے اور جن میں روئیدگی کے آثار نظر آنے لگے تھے، انہیں ڈائنامائٹ کے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔یوں کوئی پتھر بھی پانی کے قطروں سے ہم آہنگ ہو کر زندگی کے رنگوں کو نمایاں نہیں کر سکا۔لیکن پاکستانی بھی اپنی ریاست اور اپنے راہنماو¿ں کی وفا گریزی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔فیض احمد فیض عالم شباب میں پاکستانی بنے اور چند ہی برسوں کے اندر انہوں نے اس حب وطن کے مستقبل کا اندازہ قائم کر لیاتھا ،جس کے محو خواب رہنے پر حسرت موہانی شکوہ سنج رہتے تھے۔فیض نے تو اپنے راست انداز سے سمجھا دیا تھا کہ؛
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اور یہ کہ؛
گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ سیاست کی ستم گری اور جلی و خفی عسکری بندوبست کا شکار رہنے کے باوجود پاکستان کے امید پرست عوام انسانی آزادی، انسانی مساوات اور انسانی یک جہتی کی بنیاد پر استوار جمہوریت کے خواب سے دستکش نہیں ہوئے۔وہ ہر راہزن کو راہبر سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ چلتے ہیں، پھر جب ان کے راہبر اپنا جملہ مال منال سمیٹ کر بیرون ملک جا مقیم ہوتے ہیں تو پھر سے سب کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔سناہے کہ کسی زمانے میں آسمان بڑا حساس ہوا کرتا تھا۔لیکن دنیا میں موسمیاتی تغیرات کے باعث اب شاید آسمان بھی پہلے جتنا بلند ،متواضع ، ہمدرد اور مہربان نہیں رہا۔ورنہ کیسے ہو سکتا ہے کہ؛ قدرت جفاجو قوتوں اور ان کے مرغان دست آموز کو حسب معمول رسومات ستم جاری رکھنے کی اجازت دیتی پھرے؟پچھلے دنوں گورنر ہاوس لاہورمیں یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر قرضہ سکیم کے تحت نوجوانوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی انتخابی مہم سلسلے کا دوسرا خطاب کیا ہے۔پہلا خطاب وہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے چند نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب میں کر چکے تھے۔لاہور والی تقریب میں وزیراعظم نے ڈیڑھ سال مسلسل سوٹ پہن کر ، اپنے اور اپنے بچوں اور دیگر ساتھیوں کے ضبط شدہ اثاثے بحال کرانے ، مقدمات ختم کرانے اور اپنی شخصی ضمانت پر جیل میں بند اپنے برادر کلاں کو لندن علاج کے لیے بجھوانے کے علاہ جو تھوڑا سا وقت بچ رہا تھا ،اس میں آواز اور انداز بدل بدل کر قرض مانگنے اور انگلی لہرا لہرا کر فرضی باتیں کرکے گزار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے قریبا ڈیڑھ سال تک خسارے میں چلنے والے ملک پر منافع بخش حکومت کر لینے ، غریب عوام کو مکمل طور پر مفلس و بے نوا بنانے اور ملک کے ہر ذی نفس کو ٹیکسوں کی زنجیروں سے جکڑ لینے کے بعد، ایک مقروض ریاست کی نژاد نو کو آغاز شباب ہی سے قرض کی اہمیت و افادیت کا درس دینے کے لیے 5لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضوں کے چیک تقسیم کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کو ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے جراتمندانہ فیصلے کر نے ہونگے ، انہوں نے یہ وضاحت کرنا مناسب خیال نہیں کیا کہ؛حکومت نے ابھی تک ان کی قیادت میں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کےلئے جراتمندانہ فیصلے کیوں نہیں کیے؟ انہوں نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ اگر ہر برادر ملک سے بھاری قرض یا بنکوں میں رکھنے کےلئے بڑی رقم کا حصول سپہ سالار کے دورے اور درخواست کے بغیر ممکن نہیں تھا ، تو پھر وزارت خزانہ پالنے اور مسلسل جھولے دینے کی کیا ضرورت تھی۔شہباز شریف نے کہا کہ انقلابی اقدامات سے ہی پاکستان میں معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی ۔انہوں نے ان انقلابی اقدامات کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ستم ظریف میری نادانی پر ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ دیکھیں سیاست میں ہر سیاستدان کا انقلاب الگ الگ ہوتا ہے ۔اسلیے جب کوئی گرمیوں کے موسم میں تھری پیس سوٹ پہن کر انقلاب کی بات کرتا ہے تواس سے مراد اسکے اور اسکے سیاسی گروہ یا پارٹی کے اپنے خاص اہداف ہوتے ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو شہباز شریف نے عصر حاضر کی اسٹیبلشمنٹ کا اصیل بن کر اپنے سارے اہداف پورے کر لیے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ جس سیاسی جماعت سے ان کا تعلق ہے ،اسکی ہوا اکھڑ نہیں چکی،بلکہ ستم ظریف کے مطابق نکل گئی ہے ۔اب ضیا الحق کی باقیات جمع کر کے تیار کی گئی سیاسی جماعت نے عملاً ایک ملبے کی صورت اختیار کر رکھی ہے۔وزیر اعظم نے قرضے کے چیکوں کے منتظر نوجوانوں کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام کوئی حلوہ یا لڈو پیڑے نہیں ہے ۔حلوہ اور لڈو پیڑے کا ذکر کرتے ہوئے شہباز شریف کے لہجے کی گوالمنڈیت اچھل کر سامنے آ کھڑی ہوئی۔ انہوں نے لگے ہاتھوں ایک سچ بھی بول دیا اور اعتراف کیا کہ ہم سب کو مسلسل محنت کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا، ستم ظریف نے یہاں ایک سوال اٹھایا ہے کہ ؛ ابھی تک ہم سب یعنی حکومت اور عمال حکومت نے مسلسل محنت کرنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟شریف خاندان نے پاکستان پر طویل عرصہ حکومت کی ہے ، ان کی اپنی چنیدہ بیوروکریسی ، اپنے منصف ،اور اپنے واقف کار ساتھ ہوتے ہیں۔اس کے باوجود جب یہ حکومت میں ہوتے ہیں تو مسلسل محنت کا فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟اور جب حکومت سے نکال دیئے جاتے ہیں تو ایک بھائی باہر کھسک جاتا ہے تو دوسرا بھائی انکل کی ٹانگ سے لپٹ کر ٹافیاں ٹافیاں کا شور مچانے لگتا ہے ۔اب تو انکل لوگوں کی فہم و ادراک پر سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔آج کل کے تو بچے پرانے کھلونوں سے کھیلنا پسند نہیں کرتے ،یہ پتہ نہیں کیسے انکل لوگ ہیں جو دھائیوں پرانے اور ٹوٹے پھوٹے کھلونوں سے دل بہلا رہے ہیں۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں "مسلسل محنت کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری حکومت ،اشرافیہ ،سیاستدانوں ،سرکاری افسران پر عائد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر ان سبھوں نے محنت کرنے کا عزم و ارادہ کرلیا، تو کوئی بھی ہماری ترقی کا راستہ نہیں روک سکتا۔ یہاں جن چار طبقات کا وزیراعظم نے ذکر کیا ہے ،دراصل ملک کی بدقسمتی کا باعث انہی چار طبقات کا باہمی اتحاد ہے ۔یہ چاروں طبقے یعنی سیاستدانوں میں سے جو حکومت میں ہوں ،وہ ، اور حکومت سے باہر اپنی باری کے منتظر سیاستدان ، قرضے لینے اور معاف کرانے والی نام نہاد بلکہ بد نہاد اشرافیہ اور عمال حکومت یعنی بیوروکریسی نے آج تک اپنے سوا کچھ اور نہ سوچا ہے ،نہ کیا ہے۔شہباز شریف کے ڈیرھ سالہ وزیر اعظم بننے سے ان کا اپنا شوق تو پورا ہو گیا ،لیکن ان سے جوجو کام ذمہ داران نے لے لیے ہیں ،انہوں نے ایک طرف برادر کلاں نواز شریف کے چہرے کی غمزدہ سنجیدگی میں اضافہ کر دیا ہے ،دوسرے انکی پارٹی ،جسے گوالمنڈی لاہوریے کسی زمانے میں پالٹی کہا کرتے تھے ، وقت کے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی اڑائی گرد میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو محروم اقتدار ہو کر،اور پراجیکٹ عمران کے ناکام ہونے پر جو نیک نامی اور وقعت اس جماعت کو کمانی چاہیے تھی ،وہ شہباز شریف کی نئے نئے سوٹوں میں ملبوس وزارت اعظمی کے ملبے تلے دب کر معدوم ہوتی جارہی ہے ۔اسی ملبے کو سر پر اٹھا کر اور سینے پر سجا کر شہباز شریف اگلا الیکشن اپنے پائی جان کی قیادت میں لڑنے کا اعلان کرکے کمر درد کے علاج پر توجہ دینے والے ہیں۔یاد رہے ن لیگی مریضوں کی کسی بیماری کا علاج بھی پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے