کالم

شہداءفورم بلوچستان کا جائز مطالبہ

یہ امر قابل ذکر ہے کہ شہداءکے ورثاءنے سپریم کورٹ سے فوجی عدالتیں بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہداءہماری عزتو¿، عظمت اور ہماری آن و شان ہیں لہذا فوجی عدالتوں کو کام جاری رکھنے دیا جائے کیوں کہ اس سے شہداءکے ورثاءکو فوری انصاف ملے گا۔ اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان اس فیصلے پر نظر ثانی کریں اور عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ واپس لے کیوں کہ ملٹری کورٹس وقت کی اہم ضرورت ہیںاور پیر کو سپریم کورٹ میں اس حوالے سے درخواست دائر کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار شہداءفورم کے زیر اہتمام شہداءکے ورثاءنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یاد رہے کہ شہداءکے ورثاءمیں نوابزادہ جمال ریئسانی، حاجی ثناءاللہ خان، رحیم اللہ، وزیر فرمان الٰہی، انور زیب، فوزیہ، محمد جمشید و دیگر شامل تھے۔ شہداءکے ورثاءنے کہا کہ ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ ہے کہ ہم شہداءفورم کے پلیٹ فارم سے ملٹری کورٹس کی بحالی کےلیے تحریک چلائیں گے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ جاسوسی نیٹ ورکس اور دشمن قوتوں کے مذموم عزائم سے نمٹنے کےلئے پاکستان کے قیام سے ہی ایک موثر ہتھیار کے طور پر رہا ہے، ملکی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری درخواست ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو ہر قیمت پر ملک و قوم کی سلامتی کے ضامن کے طور پر بحال کیا جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا کیس بھی عالمی عدالت میں زیرسماعت ہے تو ایسے میں اس کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو اس کی اصل صورت میں بحال کیا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اسی تناظر میں غیر جابندار مبصرین نے کہا ہے کہ شہداءکے خاندان متقاضی ہیں کہ اس ایکٹ کو بحال کیا جائے تاکہ شہداءکے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ اس وقت ملک کے غیرمعمولی حالات ہیں اور ایسے حالات غیرمعمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ اسی حوالے سے یہ امر بھی اہم ہے کہ فوجی عدالتوں اور آفیشلو¿ سیکرٹ ایکٹ کو غیرفعال کرنے سے ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر نے جنم لیا ہے جو کہ ہرگز قابل قبول نہیں ہونی چاہےے۔کسے معلوم نہےں کہ ہماراملک موجودہ حالات میں دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں اور جاسوسو ں کے مقدمات کو سول عدالتوں میں طویل مدت تک لٹکانے کا متحمل نہےں ہو سکتا۔ مبصرین کے مطابق یہ ایکٹ 1952 سے بہترین کام کر رہا تھالہٰذ ا ملک و قوم کی سلامتی کیلئے اسے دوبارہ بحال کیاجاناوقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہدا پاکستان ءکا خون راہیگاں نہےں جانا چاہےے لہٰذاملکی سلامتی کو کسی طور پر داﺅ پر نہ لگایا جائے اور شہداءکے قاتلوں کو بہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ کسے معلوم نہےں کہ ہمارے شہداءنے ملکی دفاع و سلامتی کےلیے لازوال قربانیاں دی ہیں اور یہ ہمارے ملک کا قیمتی ترین سرمایہ ہےں ۔ اس تما م صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس فیصلے پر نظر ثانی کریں گے اور عدالت عظمی یہ فیصلہ واپس لے گی۔اسی تناظر میں مبصرین کی رائے ہے کہ جان کی قربانی سے بڑی کوئی دوسری قربانی نہیں ہوتی اور اس ضمن میں ہمارے شہداء وطن عزیز کی سلامتی اور دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہےں لہٰذا ملک دشمن عناصر کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ اپنے وقتی مفادات کی خاطر ہمارے خون کے ساتھ کھیلے۔اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کےخلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گزشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان ، ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کہ ہدفِ تنقید بنانا دانشوری،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین حدِ فاصل کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت نظریہ پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے (پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ) کی سوچ کے تحت اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے صرف کریں۔ کیوں کہ حکایت ہے کہ کسی گاﺅں میں کافی عرصے سے بارش نہیں ہوئی تو لوگوں نے فیصلہ کیا کہ باہر کھلے میدان میں جا کر دعا کی جائے،سب گئے مگر ایک بچہ چھتری ساتھ لے کر گیا کیوں کہ اسے ایمان کی حد تک یقین تھا کہ بارش بہر صورت ہر رہے گی کیوں کہ اسے اپنے رب پر کامل یقین تھا ،یہ ہوتا ہے عقیدہ ۔ غالباً اس حکایت میں ہمارے قومی منظر نامے اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے کئی سبق پنہاں ہیں۔تو قع کی جانی چاہےے کہ اعلیٰ عدلیہ تما م تر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس جانب سنجیدہ توجہ دے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے