کالم

شہرت کے بھوکے موسمی پرندے

ہر شخص اپنی شہرت کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ اس کی ازلی کمزوری ہے۔اپنی شہرت کی کوشش کرنا طلب شہرت کہلاتا ہے یعنی ایسے افعال کرنا کہ مشہور ہو جا¶ں۔طلب شہرت نہایت ہی قبیح و مذموم کام ہے اور شہرت کا طالب ہمیشہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہی ہوتا ہے ۔ بعض اوقات وہ ایسا لوگوں کی تعریفیں سن کر اور اپنے نفس کی تسکین کے لیے کرتا ہے۔کئی مرتبہ خوشامد پسندانہ طبیعت بھی شہرت کی طلب کرتی ہے۔اکثر ناجائز مفادات کا حصول بھی طلب شہرت کا سبب بنتا ہے۔زیادہ تر اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیے طلب شہرت کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔بسا اوقات لوگوں کو بااسانی دھوکہ دینے کے لیے اور ان کی انکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے طلب شہرت جیسا حربہ استعمال کرتا ہے ۔ایسے لوگوں کو حب جاہ اور حب مال نے خراب کیا ہے۔ممتاز صحافی معروف کالم نگار ابو عمیرصدیقی کہتے ہیں کہ ”شہرت حاصل کرنا انسان کی بشری کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے۔ہر انسان چاہتاہے کہ اُسے معاشرے میں ایک پہچان ملے“معروف ادیبہ،کالم نگار صاحبزادی بنت زینب کا کہناہے کہ ”نشہ کوئی بھی ہو،جان لیوا ہوتاہے اور پھر یہ شہرت کا نشہ،یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جوہر پارسا،ناپارسا کی جبلت میں پایاجاتاہے۔شہرت کے بھوکوں کا اپنااپنا معیار ہوتاہے۔ تکلیف دہ بات تب ہوتی ہے جب ہم منافقت کا لبادہ اُوڑھ کر اچھی جگہ سے شہرت حاصل کرنے کا ڈھونگ کرتے ہیں“ ۔راقم الحروف نے بھی اپنے پورے صحافتی پریڈ میں بے شمار شہرت کے بھوکے دیکھے ہیں جو اِس شہر ہجوماں میں مارے مارے پھرتے شہرت حاصل کرنے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ہر ایک کی اپنی اپنی شہرت کی بھوک ہے مگر جو شہرت کی تمنااور آرزو میں نے ادبی تنظیموں کے سربراہان میں دیکھی ہے کسی اور میں نہیں دیکھی ہے ۔ سیاستدان، بیورو کریٹ ،شوبز ودیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی شہرت اور پروٹوکول کی متمنی وخواہشمند رہتی ہے مگر اتنی نہیں جتنی ادبی افراد میں ہوتی ہے۔کیا عجیب لوگ ہیں کہ شہرت،دولت اورمقبولیت کےلئے مرے مرے جارہے ہیں اور کیسے کیسے” باکمال“ اور”شاندار“کرتب کرتے نظر آتے ہیں۔یقین جانیے کہ جتنی اُلجھنیں اِن کی زندگی میں ہیں شاید ہی کسی عام قاری کی حیات میں ہو۔بیچارے بے شمار مصیبتوں کے مارے ہوئے مختلف وسوسوں،پریشانیوں اور ٹینشنوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ہر آن اِسی سوچ وفکر میں ہی نظر آتے ہیں کہ لکھاریوں کو کون سا کرتب،جادو یا کھیل دکھا کر رام رام کرنا ہے کہ اپنا کام بھی بن جائے اور مال بھی چوکھا آئے۔یقین کریں سارا دن مال کیسے بنانا کی فکر میں ہی صبح سے شام کر لیتے ہیں کہ کیا کمال کام کرتے ہیں۔اگر اِن افراد میں کوئی پبلشر بھی ہے تو اپنا سارا دن کتاب پبلش گاہک ڈھونڈنے اور پھر اُسے مطمئن کرنے میں ہی گزار دیتا ہے ۔ صحافت تو اِک بہانہ ہے کتاب پبلش ہی اصل نشانہ ہے۔بطور پبلشرز کیا ”خوب پیکج“کتاب پبلش لکھاریوں کو دیتے ہیں کہ صاحب کتاب بھی گھوم جائیں،اپنے فئیرپرائس پیکج ریٹ ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے پیش کرتے ہیں کہ مصنف پریشان ہوجائے کہ جا¶ں تو جا¶ں کہاں۔کتاب کا”لے آوٹ”ایسا ہوگا،صفحے اتنے،پیپر اتنے گرام ، سرورق سونے جیسا اور پھر چکروں کی بھول بھلیوں میں ڈالنے کیلئے اتنے صفحات کا ریٹ یہ،اتنے کا ریٹ یہ،بھی کمال رکھتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کیلے والا بولے کہ پچاس روپے درجن، ڈھائی درجن سو کے،فرق واضح ہے ۔ ان کے کم زیادہ صفحات کی ریٹ کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ایک بار اِن کے دا¶پیچ میں پھنس کر مصنف اِن کی ”مہان کاریگری“کو خوب جانچ جاتاہے جسے تفصیل میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں،سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔یہ ادبی حلقے بھی چلاتے ہیں اور کتاب بیوپار کاروبار بھی خوب کرتے ہیں۔صحافت وادب کی بدقسمتی کہیئے کہ اِسے ملے بھی تو ایسے فنکاروعیار ملے،کوئی حقیقی صاحب علم ودانش میسر نہ آیا ہے ۔ ایک سے ایک بڑھ کر افراد نے ادبی تنظیمیں بنارکھی ہیں جو ادب اور کتاب کے نام پر لکھاریوں کی جیبوں پر خوب ہاتھ صاف کر رہے ہیں اور ادبی پروگرام اور تقریبات کرواکربھی انٹری/ رجسٹریشن فیس بھی بٹور رہے ہیں اور تو اور کتاب اور ایوارڈ ماحول بناکر لکھاریوں کے پیسوں پر شب خون مارنے کی بھرپور تمنا رکھتے ہیں۔ بیشترنے اپنے ادبی ایوارڈز کے لیے بھی پیسے دو،ایوارڈ لو،کتاب دو ، ایوارڈ لو، جیسے عجیب و غریب اور ڈرامہ ایوارڈز نیلام گھر شو لگا رکھے ہیں۔ اگر ان کی اہمیت کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایوارڈز کس حیثیت کے حامل ہیں۔ان ایوارڈزکو دینے والے خود کس قدر و منزلت کے حامل ہیں ۔ حقیقت میں ایسے ایوارڈز کی نہ کوئی وقعت وحیثیت ہے اور نہ ہی دینے والوں کا کوئی خاص مقام و مرتبہ۔علم و ادب کے ساتھ بذات خود ایک بہت بڑا مذاق ہے۔ محترمہ رفعت ناز کہتی ہیں کہ ”حقیقت پہ مبنی تجزیہ ہے لیکن کوئی اس بات کوسیریس ہی نہیں لیتا رہا، ایوارڈ کی تو سیل لگی ہوئی ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ایک لڑکی بتارہی تھی کہ اُس نے 1500 روپے دے کر ایوارڈ لیاہے تومیں سوائے ان تنظیمات کی ذہنیت پہ افسوس کے اور کچھ نہ کہہ سکی“محمد زبیر کہتے ہیں کہ ”پیسے لے کر ایوارڈ دینے والے”۔فیاض محمد کہتے ہیں کہ ”اِن ایوارڈ کی کوئی وقعت نہیں ہے“۔ثناءفاطمہ وڑائچ کہتی ہیں کہ ”پیسے دو،ایوارڈ لو“۔نعمان احمد حامی کہتے ہیں کہ ”کیا رسم چلی ہے۔ کتاب دو,ایوارڈ لو”۔تحریم ڈوگر فرماتی ہیں کہ ”نہ کتاب دیتے ہیں نہ ایوارڈ لیتے ہیں“۔علی رضا کا بتانا تھا کہ”چار چار کتاب“۔رمشا خالد کہتی ہے کہ ”اِس لیے کبھی ایوارڈ تقریب کا حصہ ہی نہیں بنے“۔معروف ادیب صفدر علی حیدری نے تو اِس ساری ”ایوارڈ لوٹ مار سیل”صورتحال پرکمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مفصل مضمون لکھ کر کیا خوب کام کرتے ایسی نام نہاد ادبی تنظیمات کی ”شاندار“کارکردگی کاسارا کچا چھٹا ہی کھول کے رکھ دیاہے۔رہی سہی کسر معروف رائٹر ، علمی و ادبی و مذہبی حلقوں میں ایک معتبر اور بلند نام صاحبزادی بنت زینب کے ایک کالم ”ادب کے نام پر بے ادبیاں“نے پوری کردی ہے جس میں ایک ایوارڈ تقریب کا احوال ہے جس میں مہمانان خاص سگریٹ کے کش لگاکر ایک ایوارڈ تقریب کو ”چار چاند“لگارہے ہیں اور ایک حسین شاعرہ کی صورتحال اور”کمال“ معاملہ بیان کرکے کمال ہی کردیاہے۔ایسے میں معروف کالم نگار ابوعمیر صدیقی نے تو اپنا کالم ”شہرت کی بھوک“لکھ کر تو گویا اِن ادبی تنظیمات کے تابوت میں آخری کیل ہی ٹھونک دیا ہے ۔ ایسی خودساختہ ادبی تنظیموں کونکیل ڈالنے تک کی بات کردی۔یہ وہ صورتحال ہے کہ جس نے ادبی تنظیموں کے ذمہ داران کے تن بدن میں ایک آگ سی لگا دی ہے جس میں وہ جل بن کر بھسم ہورہے ہیں یوں شہرت کے بھوکے موسمی پرندے اس سے بلبلا اُٹھے ہیں اور سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں اپنی پریشان حال صورتحال میں اپنے گروپ کمنٹس میں مختلف رائٹروں کے ایوارڈ حقائق بارے لکھے کالمز پر ان کو گروپ و پرسنل میسجزو کال،دھمکی آمیز باتیں کہہ،لکھ اور میسج کرکے خوب غصہ نکال رہے ہیں جس پر ارباب دانش کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے