کالم

شہر اقتدار کی ”ماڈل” ٹریفک پولیس کہاں ہے؟

وفاقی دارالحکومت میں ٹریفک نظام مثالی ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہاں دنیا بھر کے سفارت کار رہائش پذیر ہیں۔ تمام فیڈرل ادارے، پی ٹی وی سینٹ،قومی اسمبلی،ائیر فورس اور بحریہ کے ہیڈکوارٹرز، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، نیب،شریعت کورٹ، وزیراعظم ہا¶س، ایوان صدر، یونیورسٹیاں سوسائٹیاں اس شہر کی پہچان ہیں۔ کہا جاتا ہے یہاں چیف ٹریفک پولیس بھی ہیں مگر پھر بھی اس شہر کی ٹریفک کا براحال ہے۔ اسلام آباد میں رکشہ اورگدھا گاڑی پر پابندی ہے۔لیکن اس شہر میں موٹر سائیکل والوں نے اودھم مچا رکھی ہے،جینا محال کر رکھا ہے۔ کل ہی مجھے فیڈرل لا بگ ہا¶س کے مالک جمیل خان کا فون آیا۔ بات کرتے ہوئے پریشان تھے بتایا کہ میں آپ کا ہفتہ وار کالم پڑھتا ہوں۔آپ ہر ایشو پر کالم لکھ رہے ہیں لیکن کیا مجال کبھی اسلام اباد کی ٹریفک پر لکھا ہو۔ بتایا کہ جس طرح یہاں سڑکوں پر موٹر سائیکل سوار موت کا سرکس کر رہے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں؟ جس کی وجہ سے یہ حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ کچھ دن قبل لاہور میں برگر فیملی کے پندرہ سالہ لڑکے نے کار کو آلہ قتل کے طور پر استعمال کیا اور چھ معصوم انسانوں کی جانیں لیں۔ اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہ تھا۔ اس کے والدین اور عزیزواقارب کے پاس بچے کی تربیت کرنے کا وقت نہ تھا۔ اداروں کے پاس ایسے بچوں کو پکڑنے کا نظام نہ تھا جس کا نتیجہ ایک خوفناک شکل میں سب نے دیکھا۔ اگر ادارے اپنا کام کر رہے ہوتے اور والدین اپنا فرض نبھا رہے ہوتے تو ایسے حادثات رونما نہ ہوتے۔راقم اسلام آباد ایکسپریس وے پر ہفتے میں تین چار روز سپریم کورٹ تک آتا جاتا ہے ۔ اس سفر کے دوران روز موت کو قریب سے گزرتے دیکھتا ہوں۔ موٹر سائیکل سوار تیز رفتاری کے ساتھ جہاں چاہتے ہیں چلتی ٹریفک میں گھس آتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ انہیں کوئی پکڑے گا نہیں؟ جبکہ روز کوئی نہ کوئی جان لیوا حادثات کے سبب، یہ بنتے ہیں اور یہ مرتے ہیں پولیس آتی ہے حادثے کی رپورٹ بناتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ کیا مجال کے نارمل حالات میں ان موٹر سائیکل والوں کی یہ خبر لیں اور غیر ضروری اور ٹیگ کرنے والوں پر نظر رکھیں۔ بے جا اورٹیگ کرنے پر جرمانے کریں اور موٹر بائیک سوار کو پہلی لائن پر چلنے پر مجبور کریں تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔ موٹر بائیک والوں پر پابندی لگائی جائے کہ یہ روڈ پر صرف پہلی لائن پر چلیں اگر تین بار ان کاچلان ہو تو چھوتی بار ان کا لائنس کینسل کردیا جائے گاڑی ضبط کر لی جائے اور پانچویں بار انہی جیل کی ہوا کھلائی جائے ۔ ایسا کرنے سے سکون آ سکتا ہے۔مگر سب سے پہلے پولیس کی اپنی ٹرینگ کی اشد ضرورت ہے ۔ انہیں پتہ ہو کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ ذمہ داری کیا ہے۔پولیس کے پاس فل پاور ہوں کہ غلطی کرنے والے کا چالان کر سکے۔ اسے یہ خطرہ نہ ہو کہ غلطی والا اس کی بلٹ اتار دے گا ۔ قانون ہی واحد راستہ ہے جو بگڑے ہو¶ں کو ٹھیک کرسکتا ہے۔ جس طرح سے موٹروے پولیس اور جی ٹی روڈ پولیس نے شروع شروع میں ٹریفک کو کنٹرول کیاکرتے تھے لیکن اب پھر سے وہی حالات ہو چکے ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ اگر پولیس اب بھی اسی انداز سے اسلام آباد کی ٹریفک کو کنٹرول کرے تو اچھے رزلٹ مل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کار اور موٹر سائیکل سوار بغیر کسی ٹرینگ کے ڈراﺅنگ لائسنس حاصل کرتے ہیں اور پھر روڈ پر آ جاتے ہیں۔جس سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ۔ لہٰذا جب بھی چالان کریں ان کو موٹر ٹریننگ کی کلاس میں بیٹھنے پر مجبور کریں۔ اس ٹریننگ کلاس میں تجربہ کار لوگ لیکچر دیں۔ ساتھ میں انہیں ایسی ویڈیو بھی دکھائی جائیں جن کو دیکھ کر یہ ڈریں۔ انہیں روڈ سنس دیا جائے۔اس پر شارٹ موویز بنائی جائیں۔ جن سے یہ سبق حاصل کریں۔ اسلام آباد ایکسپریس وے پر چار لائنز ہیں۔ بائیں لائن کی پہلی لائن ٹریفک کی وہاں بلاک ہو جاتی ہے رک جاتی ہے جہاں اس لائن پر بس ویگن سٹاپ اتا ہے۔ان سٹاپ کو اس لائن سے باہر جا کر بس سٹاپ بنانے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ جب تک آپ ایسا نہیں کرتے وہاں ٹریفک کا فلو خراب اور سست رہے گا اس کا اثر تمام دوسری لائنوں کی ٹریفک پر پڑتا ہے اور وہ سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اس نقص کو جلد سے جلد دور کیا جائے۔ اسی طرح جب بھی کوئی نئی سڑک بنتی ہے اور اسے پرانی سے جب صحیح جوڑا نہیں جاتا جیسے پی ڈبلیو ڈی کا برج اور اسلام آباد کلب سے فیض آباد کے درمیان بننے والی نئی سڑک کا حال ہے۔ پانچ فٹ پر بجری ڈالنے سے مشکل حل ہو سکتی ہے اگر اس کی فوری مرمت کردی جائے تو ٹریفک کا فلو ٹھیک ہو سکتا ہے مگر کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا۔اس جانب توجہ دلانا ٹریفک پولیس کا کام ہے کہ وہ متعلقہ محکمہ ادارے کو بتائے اور ان سے جلد ان جگہوں پر کام کروائیں۔ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی۔دوسرا قانون کا خوف ہی انسان کو اچھا شہری بناتا ہے قانون کو نافذ کرنے میں ہی بہتری آ سکتی ہے، کیا امریکا میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ بچہ گاڑی گھر سے باہر چلائے، یا بغیر لائسنس کے کوئی گاڑی چلانے کا کیا سوچ سکتا ہے؟ وہاں ڈرائیونگ میں غفلت سے گاڑی چلانا یا بغیر لائسنس گاڑی چلانا یا شراب پی کر گاڑی چلانے کا سوچ نہیں سکتا۔کیونکہ اسکی سزا اقدام قتل کی سزا کے برابر ہے۔امریکا میں ہر قسم کی آپ کو چھوٹ مل سکتی ہے مگر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا بغیر لائسنس کے گاڑی چلانا سنگین جرم ہے۔ اس کے علاوہ وہاں معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی ہیوی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور بغیر لائسنس کے تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ گاڑی چلا سکیں گے! بعض اوقات غلطی پر غلطی کرنیوالے کا لا ئسنس بھی کینسل ہو جاتا ہے تین سال پرانی گاڑیوں کو ہر سال فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو وہ روڈ پر نہیں آسکتی۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے، تو آپ کی گاڑی کو بند نہیں کیا جاتا چھوڑ دیا جائے گا کیا اس لئے تاکہ وہ راستے میں درجنوں معصوم جانوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکے۔ آپ کراچی کے بچے کا کیس دیکھ لیں جس سے اس نے جان بوجھ کر ایکسیڈنٹ کیا۔ اگر بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے کہ کچھ بھی برا کرو، تو ”پاپا تمہارا سنبھال لیں گے” تو ایسے بچے کبھی معاشرے میں نارمل زندگی نہیں گزار سکتے۔ ایسے بچوں سے زیادہ ا±ن کے والدین سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ا±ن کی غلط کام کرنے پر کبھی حوصلہ افزائی نہیں کریں اور رہی بات حادثات کی تو اس حوالے سے ایک الگ ایسا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو ہمہ وقت اسی پر کام کرے کہ یہ ایکسیڈنٹ ہوا کیسے۔ اگر پولیس سارا وقت نہیں تو صبح سات سے دس بجے اور شام تین سے سات بجے پٹرولنگ کیا کریں۔ سختی کریں۔ فی الحال ٹریفک پولیس لگتی ہے سو رہی ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے جس طرح چائے ٹریفک میں گاڑی چلا رہا ہے۔ پولیس ایکسیڈنٹ پر آتی ہے کارروائی کرتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ یہی طریقہ جاری رکھا تو یاد رکھنا ایک دن آ ئیگا جب یہ خود اور ان کے اپنے بچے بھی کسی حادثے کا شکار ہو چکے ہو نگے۔ پولیس کے اس نظام کو واپس لائیں جس کے تحت شروع میں موٹروے اور جی ٹی روڈ پر پولیس اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے اب بھی ایسا کر سکتے ہیں اور کرنا چائے بھی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے