اداریہ کالم

صدر مملکت کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

idaria

صدر مملکت ریاست کے نمائندہ ہوا کرتے ہیں مگر موجودہ صدر مملکت عارف علوی نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کے نمائندہ ہیں ، مرکز میں جب تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ان کی جگہ برسر اقتدار آنے والی پی ڈی ایم کی جانب سے نامزد کئے جانے والے وزیراعظم شہباز شریف سے انہوں نے حلف لینے اس لئے انکار کیا کہ ان کا تعلق ایک مخالف جماعت سے ہے ، حالانکہ ریاست کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے ان کا فرض بنتا تھا کہ وزیر اعظم سے وہ حلف لیتے پھر بعد میں انہوں نے قومی اسمبلی میں پاس کیے جانے والے بہت سارے بل واپس بھجوادیئے اور ان پر دستخط کرنے سے معذرت ظاہر کی، گزشتہ روز انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں عام انتخابات کے حوالے سے انہوں نے ایک بار پھر ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں کہ جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہو پائے ، انہیں یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ، اس کا جواب وہ خود دے سکتے ہیں تاہم حیرت اس بات پر ہے کہ اتنے بڑے اور اہم عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود وہ شکوک وشبہات والی بات کررہے ہیں ، اپنے انٹرویو میں ان کہنا تھاکہ ملک میں جمہوریت چل رہی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ 27 سال سے ہوں، وہ بطور دوست اور ہمدرد مجھ پر نظررکھتے ہیں، وہ ابھی بھی میرے لیڈرہیں، عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کا کریڈٹ نگران حکومت کوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان صدرمیں نہ ہوتا اورپی ٹی آئی دورکا وزیرہوتا توجیل میں ہوتا، اس وقت ملک کو جوڑنا ضروری ہے، درگزرکی کیفیت سے قومیں بنتی ہیں۔چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے متعلق عارف علوی کا کہنا تھاکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی شفاف انداز میں بینچزبنارہے ہیں، ان کے خلاف ریفرنس سے میرا کوئی تعلق نہیں، ریفرنس میرے پاس آیا توکسی نہ کسی طرف بھیجنا ہوتا ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم نے توکہہ دیا کہ وہ توریفرنس دینا ہی نہیں چاہتے تھے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ قابل احترام شخصیت ہیں اور وہ انصاف کریں گے، لوگوں کوعدالتوں پربھروسہ ہے، چیف جسٹس سے قوم کوامید ہے وہ قوم کی امیدوں پرپورا اتریں گے۔ان کا کہنا تھاکہ آئین کہتا ہے اگلا صدر منتخب ہونے تک موجودہ صدر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھے گا، پارلیمانی نظام میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کرپائے، پاکستان بڑی مشکلات کے ساتھ جمہوریت کے نظام پر قائم ہے۔الیکشن کی تارخ سے متعلق صدر مملکت کا کہنا تھاکہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کےلئے خط کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، پنجاب اور کے پی میں انتخابات کےلئے الیکشن کمشنر کو بلایا لیکن وہ نہ آئے، پھر میں نے وزیر قانون کو بلایا تو انھوں نے لکھ بھیجا کہ آپ کا یہ حق نہیں ہے۔ مردم شماری کے معاملات پرمسائل آرہے تھے، میں نے کہا تھا کہ 6نومبریا اس سے پہلے الیکشن کرائے جائیں۔ وزارت قانون نے مجھے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا میرا حق نہیں، پرنسپل سیکرٹری کوہٹاکرلکھ دیا تھا کہ میں اپنے موقف پرقائم ہوں۔ن لیگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ ن لیگ جس بیانیے کی تلاش میں تھی وہ عوام نے نواز شریف کے ہاتھ میں تھما دیا ہے، مینار پاکستان پر نواز شریف نے سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی پھر اگلے دن سروے میں عوام کی اکثریت 70فیصد نے کہہ دیا کہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی سے محاذ آرائی کے خاتمے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی حمایت کرتے ہیں۔سب لوگ لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کررہے ہیں، ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن صاف اورشفاف ہونا چاہیے، حج پر گیا ہوا تھا تو الیکشن ایکٹ کی ترمیم جاری ہوگئی، حج پر نہ گیا ہوتا تو الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم پر دستخط نہ کرتا، الیکشن ایکٹ 2017کی شق 57ون میں ترمیم آئین کیخلاف ہے۔ہمیشہ سے توڑپھوڑکیخلاف ہوں، 9مئی کے واقعات کی مذمت کی،آگے جانے کا راستہ کھلنا چاہیے، آصف زرداری کے پاکستان کھپے کے نعرے کو ہمیشہ سراہوں گا، ہمیشہ کہا ہے ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس میں توڑپھوڑ ہو۔یقین نہیں ہے کہ جنوری کے آخرمیں الیکشن ہوجائیں گے، اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کے معاملے پر نظر رکھی ہے مناسب فیصلہ آئے گا۔حالیہ انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ ان کے دل میں اب بھی چیئر مین پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ موجود ہے اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے ،سائفر کے ذریعے اہم قومی راز افشا کرنے کے بعد بھی مقتدر حلفے ان سے مذاکرات کریں ، اس انٹرویو کی حیران کن بات یہ ہے کہ انہوں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ کے خلاف بجھوائے گئے ریفرنس سے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کیا ہے حالانکہ اس پر ان کا دستخط موجود ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ پڑھے بغیر فائلوں پر دستخط کرتے رہے ہیں ، دوسرا سوال یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے قومی اسمبلی سے پاس کردہ بل دستخط کئے بغیر واپس بجھوادیے تو اسی طرح وہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بجھوائے گئے ریفرنس کو بھی واپس بجھوا سکتے ہیں ، اب جو مرضی وضاحت پیش کرتے رہے عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھجوانے کے عمل میں وہ پوری طرح شریک رہے ہیں تاہم اب وہ اس قسم کے بیانات دے کر گونگلوو¿ں سے مٹی جھاڑ نے کی کوشش کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی دور کا بڑا سکینڈل
سابقہ دور حکومت میں تحریک انصاف کی حکومت سرکاری خزانہ استعمال کرکے اپنی حکومت کی تشہیر کے لئے کیا کیا حربے اختیار کرتی رہی ہے ، اس کی تفصیلات اب منظر عام پر آگئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا ٹیمیں بناکر انہیں ماہانہ بھاری معاوضہ دیتے رہے جس کی ادائیگی سرکاری خزانے سے ہوتی رہی ، اس حوالے سے پی ٹی آئی دور کا ایک بڑا سکینڈل سامنے آگیا ہے کہ جس کے تحت سرکاری وسائل غیر قانونی سیاسی تشیہری مہم کیلئے استعمال کیا گیا، سرکاری وسائل کے بل بوتے پہ پی ٹی آئی قیادت کی جعلی تشہیر اور ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈاکیا گیا، مخالفین کی کردار کشی اور ہرزہ سرائی کیلئے سوشل میڈیا ٹیموں کا بے دریغ استعمال کیا گیا، سرکاری منصوبوں کی تشہیر کے بجائے زہریلا پراپیگنڈا کیا جاتا رہا، سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کی آڑ میں سوشل میڈیا ٹیموں کو پی ٹی آئی کے مذموم بیانیے کو پھیلانے کا ٹاسک دیا گیا، جعلی سوشل میڈیا ٹیموں کو شخصیت پرستی اور جھوٹ کے پرچار کیلئے استعمال کیا گیا، ان اکاو¿نٹس کو پی ٹی آئی کے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے، پروپیگنڈہ مہم، ڈس انفارمیشن، سازشی بیانیہ سازی اور عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا،ذرائع کے مطابق معاشرے میں نفرت انگیز بیانئے سے عدم استحکام کو فروغ دیا گیا، پراپیگنڈا اکاو¿نٹس کے فالورز سرکاری وسائل سے بڑھائے گئے لیکن اختتام پر یہ اکاو¿نٹ پی ٹی آئی کے سیاسی کارکنان استعمال کرتے رہے، مجموعی طور پر اس پروجیکٹ کی لاگت 870 ملین رکھی گئی تھی،مزید تحقیق میں پی ٹی آئی کے مبینہ طور پر بدنیتی پر مبنی ایجنڈے کا انکشاف ہوا جس میں سوشل میڈیا ٹیمز کو پی ٹی آئی نے غیر قانونی طور پر سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کیاگیا، ان ملازمین کی تنخواہ 25ہزار – 40 ہزار روپے تھی اور سرکاری فنڈز سے ان سوشل میڈیا ٹیموں پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، پی ٹی آئی کے اس ریاست مخالف پروپیگنڈے میں شامل 800پہلے سے موجود اکاو¿نٹس کی جب تحقیق کی گئی تو چشم کشا حقائق سامنے آئے، ان ملازمین میں سے 72.5 فیصد اکاو¿نٹس کا 2021 سے پہلے پی ٹی آئی کی طرف کوئی سیاسی جھکاو¿ ہی نہیں تھا،جون 2022 کے بعد 86فیصد اکاو¿نٹس نے اپنا سیاسی جھکاو¿ تبدیل کر لیا اور اپنے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس پر پی ٹی آیی کا بیانیہ پوسٹ کرنا شروع کر دیاان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کا کبھی کوئی نظریہ تھا ہی نہیں ، یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی جو کہ ریاست پاکستان کے خزانے سے پیسے دے کر کروائی جا رہی تھی، غریبوں کی خون پسینے کی کمائی سے دیئے گئے ٹیکس کا پیسہ جو پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پروپیگنڈے کے لئے جھونک دیا، عوام کے پیسوں پر ریاست مخالف مواد پھیلایا گیا، ان اکاو¿نٹس نے 9 مئی واقعات میں پی ٹی آئی کے کارکنان اور عوام کو اشتعال دلانے، تشدد پر بھڑکانے اور ممکنہ طور پر فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور عوام اور اداروں میں نفرت پھیلا کر درڑیں ڈالنے کی کوششیں کیں، جعلی سوشل میڈیا ٹیموں کی بھرتی کا عمل غیر قانونی اور فراڈ پر مبنی تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri