کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس ملک کے معاملات کس انداز میں چلائے جارہے ہیں ، ایوان صدر مملکت کا سب سے بڑا سرکاری دفتر کہلاتا ہے اور اس میں بیٹھنے والی شخصیت کو صدر مملکت کا منصب عطا کیا جاتا ہے اور پھر اس دفتر کو چلانے کیلئے سینکڑوں ملازمین کام کرتے ہیں جن میں گریڈ ایک سے لیکر گریڈ 22تک شامل ہیں مگر اس کے باوجود ایوان صدر سے صدر مملکت کے دستخطوں سے منظور ہونے والے بل کے دس دن بعد اچانک صدر مملکت ایک ٹویٹ کرکے کہتے ہیں کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط ہی نہیں کیے ، اس سے قبل ان پارٹی کے قائد اور سابق وزیراعظم سے جب سائفر کے معاملات پر پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے کہا کہ سائفر گم ہوگیا ہے ، حیرت ہے کہ اتنے بڑے دفاتر کے اندر اگر یہ معاملات ہیں تو پھر ملک کے دیگر دفاتر کا کیا حال ہوگا ، اب کوئی صدر صاحب سے پوچھے کہ جب آپ نے ترمیمی بل پر دستخط نہیں کئے تو اس پر آپ نے خصوصی نوٹ کیا لکھوایا اور واپس بھجواتے وقت کیا آپ نے اس پر یہ لکھا کہ یہ بل واپس بجھوایا جارہا ہے جو لوگ سرکاری دفاتر کی خط و کتابت بارے جانتے ہیں انہیں پتہ ہے جو معاملات حل طلب نہیں ہوتے ان کے اوپر متعلقہ افسر کی فائنڈنگ لکھی جاتی ہے اور پھر وہ متعلقہ برانچ کو واپس بھجوادیا جاتا ہے ، اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر صدر مملکت سے غیر ذمہ دارانہ رویے کی توقع نہیں کی جاسکتی مگر وہ با ر بار اس امر کی تردیدکررہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ یہ بل قومی مفادات کے پیش نظر تیار کیے گئے تھے ان پر صدر مملکت کو دستخط نہ کرنے کی کیا سوجھی اور دستخط کرنے میں کیا قباحت تھی لیکن اس سے ایک بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ تحریک انصاف کی ساری قیادت نیچے سے لیکر اوپر تک مسلح افواج کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں جس کی ایک عملی جھلک نو مئی کو ملک بھر نے دیکھ لی اور اب صدر مملکت کی جانب سے کی جانے والی تردید نے اس پر مہر ثبت کردی ہے ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کر تے ہوئے کہا ہے کہ خدا گواہ ہے کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے،میرے عملے نے میری مرضی کے برخلاف قدم اٹھایا،دوسری جانب قومی اسمبلی و سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے دونوں بلوں کے گزیٹڈ نوٹیفکیشن جاری کر دئیے گئے۔ (ٹوئٹرپر جاری بیان میں عارف علوی نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے بعدمیںپتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔ وزارت قانون و انصاف نے صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کے حالیہ ٹویٹ پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ایسا عمل آئین کی رو کے متصادم ہے، آرٹیکل 75کے تحت صدر کے پاس بل منظور یا مسترد کرنے کیلئے بھجوایا جاتا ہے،صدر کے پاس دوآپشنز کے سوا تیسرا موجود نہیں ہوتا۔،صدرمملکت ماضی میں ایسا عمل کئی بارکرچکے ہیں،لہٰذا صدر مملکت اس معاملے پر کوئی ایکٹ جاری کرسکتے تھے،وزارت قانون وانصاف کے مطابق یہ عمل انتہائی تشویشناک ہے، یہ تشوش ناک امر ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملہ کو اس ضمن میں مورد الزام ٹھہرایا،صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہئے۔ آئین میں صدر مملکت کے پاس دواختیارات واضح کیے گئے ہیں،صدر مملکت بل کو منظور یا مسترد کرسکتے ہیں۔ادھرنگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ نگران حکومت کا کوئی سیاسی ایجنڈا یا سیاسی مینڈیٹ نہیں، وزارت قانون کی وضاحت کے بعد صدر مملکت کے ٹویٹ سے پیدا ہونے والا ابہام ختم ہو چکا ہے، صدر ریاست کے سربراہ ہیں، ان کا عہدہ تعظیم کا متقاضی ہے، کوئی توقع نہ کرے کہ ہم صدر کی تعظیم کے خلاف کوئی بات کریں گے، قانونی و آئینی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو نگران حکومت آئین کے اندر رہتے ہوئے جواب دے گی، ابہام دور کرنے کے لئے نگران حکومت کی کوشش کو سیاسی رنگ نہیں دیا جا سکتا۔دوسری جانب نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے کہا کہ صدر کے پاس دو بلوں کی منظوری کے لیے دس دن موجود تھے وہ ان پر اعتراض عائد کرکے واپس کرسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور مدت پوری ہونے پر بل قانونا منظور ہوگئے۔نگراں حکومت کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور ا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ، اس معاملے پر صدر مملکت کے اسٹاف کا سامنے آکر وضاحت دینا نامناسب عمل ہوگا، ایوان صدر سے بل واپس موصول ہوئے ہی نہیں تو ہمیں بلوں پر صدر کے اعتراض کا کیسے پتا چلے گا؟ اس معاملے میں ایوان صدر کا کوئی ریکارڈ قبضے میں نہیں لیں گے، اگر صدر مملکت کا اسٹاف ان کے اپنے اختیار میں نہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔
پنڈی بھٹیاں، ٹریفک کاافسوسناک حادثہ
پاکستان میں ٹریفک حادثات کی شرح بڑھتی جارہی ہے مگر اس حوالے سے ابھی تک ٹریفک پولیس یادیگر اداروں نے اپنی ریسرچ رپورٹ تیار نہیں کی کہ آخر ان حادثات کی وجوہات کیا ہے جس کے باعث سینکڑوں افراد اموات کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، گزشتہ روز موٹر وے پر پنڈی بھٹیاں کے قریب پک اپ وین اور مسافر بس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی، حادثے میں 20 مسافر جاں بحق اور 15 زخمی ہوگئے۔ریسکیو حکام کے مطابق مسافر کوچ کراچی سے اسلام آباد جا رہی تھی کہ حادثہ پیش آگیا جبکہ پک اپ وین ڈیزل لے کر جا رہی تھی، مسافر کوچ میں 40سے زائد مسافر سوار تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد شامل ہیں، جاں بحق افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ اکثر زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے، 15مسافروں کو بحفاظت نکالاگیا۔ حادثے میں بس اور پک اپ وین کے ڈرائیور بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر،آئی جی موٹر وے پولیس اور ڈی پی او نے موٹر وے پر بس حادثہ کی جگہ کا بھی دورہ کیا اور وہاں حادثہ کا جائزہ لیا۔ آئی جی موٹر وے پولیس سلطان علی خواجہ نے غفلت برتنے پر موٹروے بیٹ کمانڈر اور نائٹ شفٹ پٹرولنگ افسران کو معطل کر دیا گیا۔ آئی جی موٹروے پولیس نے موٹروے ایم فور پر کراچی سے اسلام آباد جانے والی بس حادثہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے محکمانہ کاروائی کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔ آئی جی کی تشکیل کردہ انکوائری کمیٹی نے بس حادثہ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ انکوائری کمیٹی کو 24 گھنٹوں میں حادثہ کی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ بس ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا۔
پنجاب کابینہ کا جڑانوالہ کا دورہ
سانحہ جڑانوالہ میں متاثر ہونے والے مسیحی بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا سلسلہ جاری ہے اور انہیں اعتماد میں لینے کیلئے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت حوصلہ مندانہ اقدامات کرنے میں مصروف ہیں ،اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں “کے مصداق پنجاب حکومت کا مسیحی برادری سے بھرپور اظہار یکجہتی کےلئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی تمام صوبائی وزراءکے ہمراہ جڑانوالہ کے علاقے عیسیٰ نگر پہنچے ۔ پنجاب کی تارےخ مےں پہلی بارنگران وزےراعلیٰ محسن نقوی کی زےر صدارت مسےحی برادری سے اظہار ےکجہتی کےلئے چرچ کے اندر ہی صوبائی کابےنہ کا اجلاس منعقد ہوا۔صوبائی کابےنہ نے متفقہ طورپر جڑانوالہ واقعہ مےںنذرآتش کےے جانے والے گھروں کے مالکان کےلئے 20لاکھ روپے فی گھر مالی امداد کی منظوری دی۔محسن نقوی نے کہا کہ واقعہ مےں نذرآتش ہونے والے ہرگھر کے مالک کو 20لاکھ روپے کی امدادی رقم کے چےک48گھنٹے تک متاثرےن کو دے دےئے جائےںگے۔وزےراعلیٰ نے بتاےا کہ جڑانوالہ کے دو گرجا گھروں کی تعمےر وبحالی مکمل کرلی گئی ہے جبکہ دےگر گرجاگھروں کی مسےحی برادری کی مرضی کے مطابق جلد تعمےر وبحالی کی جائے گی۔ وزےراعلیٰ نے کہا کہ ےہاں آنے کا مقصد آپ کے دکھ مےں برابرمےںشرےک ہونا ہے ۔
اداریہ
کالم
صدر مملکت کی سادہ لوحی یا نیا طوفان
- by web desk
- اگست 22, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 782 Views
- 2 سال ago

