کالم

طارق بن زیاد

یوں تو تاریخ اسلام میں کئی نام ور سپہ سالار اور جرنیل گزرے ہیں،مگر آج ہم آپ کے سامنے افریقہ ایک مشہور مسلم سپہ سالار اور جرنیل طارق بن زیاد کا ذکر کرتے ہیں۔ طارق بن زیاد افریقہ کے ایک بر بر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس قبیلے میں بھی جب اسلام کی روح پہنچی تو ایک بہاد ر نامی گرامی جرنیل طارق بن زیاد پیدا ہوا۔سپہ سالار طارق بن زیاد بنی امیہ دور حکومت کے ایک مشہور سپہ سالار بتھے۔انہوں نے711ءمیں ہسپانیہ(اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اس کے بعد یورپ میں مسلم اقتدر کا آغاز ہواتھا۔ طارق بن زیاد کو اسپین کے مشہور عسکری رہنماﺅں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ ہسپانیہ فتح کرنے سے پہلے بنو امیہ کے افریقا کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے۔موسیٰ بن نصیر نے اسپین کے بادشاہ کی اپنی رعایا پر ظلم ستم کرنے کی وجہ اور عوام کے مطالبہ پر طارق بن زیاد کو ہسپانیہ فتح کرنے کا کا م سونپا تھا۔طارق بن زہاد نے صرف سات ہزار مسلم سپائیوں کے ساتھ ہسپانیہ کے بادشاہ رڈارک کی ایک لاکھ جری فوج کا مقابلہ کیا تھا۔ رڈارک کی فوج کو شکست فاش دی۔ اسپین پر اسلام کا جھنڈاگھاڑ دیا تھا۔مورخین کی رائے ہیں کہ اسپین کی فتح پر یورپ کو مسلمانوں کا احسان مند ہونا چاہےے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسپین میں عیسائی دنیا نے پسماندگی سے نکل کر علم ثقافت اور تہذیب مسلمانوں کی وجہ سے ترقی کی تھی۔مسلمانوں نے انہیں اندھیروں سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی تھی۔طارق بن زیاد کی تربیت موسیٰ بن نصیر گورنر افریقہ کی نگرانی میں ہوئی تھی۔موسیٰ بن نصیر ایک ماہر حرب اور عظیم مسلم سپہ سالارتھے۔ اس تربیت سے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں بہت جلد شہرت حاصل کر لی تھی۔ہر طرف اُن کی بہادری کے چرچے ہونے لگے تھے۔ طارق بن زیاد نہ صرف دنیا کے بہترین سپہ سالار وں میں سے ایک تھے بلکہ وہ متقیٰ، فرض شاناس، بلند ہمت انسان بھی تھے۔ اس کے حسن اخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لا حق تھا۔جبکہ دوسری طرف اسپین کے عوام نے اپنے بادشاہ کے ظلم کی کہانیاں موسیٰ بن نصیر تک پہنچائیں تھیں۔ اسی لیے اموی گورنر موسیٰ بن نصیر نےدشمن کی قوت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار جوج دے کر انہیں ہسپانیہ پر حملہ کرنے اور فتح اسے کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔تیس اپریل 711ءکا اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اُترا اور ایک پہاڑ کے دامن میں اپنے قدم جمالیے۔ بعد میں یہ پہاڑ” جبل الطارق“ کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔بات یہ ہے کہ طارق بن زیاد نے اس پہاڑ کے دامن میں محفوظ جگہ چن لی تھی۔اس موقع پر اپنے سارے سپائیوں کو جمع کیا۔ ان کے سامنے مومنانا سوچ، ایمان کی طاقت اور نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا۔ کہا کہ دیکھو سپائیوں تمھارے سامنے ایک لاکھ دشمن کی فوج ہے۔ پیچھے سمندر ہے۔اس لیے ہم نے ہر حالت میں فتح حاصل کرنی ہے۔ سارے سپائیوں کے سامنے جنگی بحری جہازوں کو جلانے کا حکم صادر فرمایا ۔کہا کہ ہم دشمن سے لڑ کر فتح پائیں گے یا شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہونگے۔اس میں ایک طرف تو ایمانی قوت تھی تو دوسری طرف ایک جنگی چال تھی۔ جنگی چال یہ تھی کہ دشمن کی ایک لاکھ فوج دیکھ کر ہمارے سپائیوں کے حوصلے پست نہ ہو جائیں۔ان کے دل سے پسپائی کا خیال نکل جائے۔ اس جنگی چال کی وجہ سے مسلمان فوج کے پاس ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا۔ یا تو دشمن کو شکست ِفاش دیں یا جان،جان آفرین کے حوالے کر دیں۔یہ ایک ذبردست جنگی چال تھی۔ اس جنگی چال کی داد بعد میں آنے والے عظیم سپہ سالاروں نے بھی دی۔ سات ہزار کے مختصر لشکر، ایمانی قوت سے سرشار ہو کر ایک لاکھ فوج سے ٹکرا گئے۔ گھمسان کا رن پڑا۔ آخر کار شہنشاہ رڈارک مارا گیا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانوی فوج کبھی بھی متحد ہوکر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق بن زیاد کی فتح کی خبر موسیٰ بن نصیر تک پہنچی تو خوشی کے موقع پر اس نے اپنے بیٹے عبداللہ کو اپنا نائب مقرر کر کے طارق بن زیاد سے ملنے اسپین پہنچ گیا۔اس کے بعد دونوں نے مل کر کئی علاقے فتح کیے۔کچھ مدت بعد بنو امیہ کے خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دارلخلافہ دمشق بلوا لیا۔اس طرح مشہور مسلم سپہ سارلا طارق بن زیاد کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا ۔ طارق بن زیاد نے ۰۲۷ءمیں وفات پائی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے