یہ سوال آج صرف ایک فرد کی شناخت جاننے کیلئے نہیں اٹھایا جا رہا بلکہ اس نظام کو سمجھنے کیلئے ہے جس میں چند کارپوریٹ نام ریاستی فیصلوں کے مرکز میں آ جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا معاشی فیصلہ ہوتا ہے، اس کے پیچھے نظر آنے یا نہ آنیوالے کردار سامنے آتے ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے، منتخب ایوانوں میں یا سرمایہ کے مراکز میں۔ عارف حبیب اسی طاقت کے ارتکاز کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں، جہاں کاروبار، پالیسی اور ریاستی مفاد ایک دوسرے میں گتھم گتھا دکھائی دیتے ہیں ۔ عارف حبیب محض ایک کاروباری شخصیت نہیں بلکہ پاکستان کے اس کارپوریٹ طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں میں خاموشی سے طاقتور ہوا ہے۔ اگرچہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی کبھی پارلیمنٹ میں نظر آئے، مگر ان کا اثر اکثر منتخب ایوانوں سے زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔ عارف حبیب گروپ کا سفر اسٹاک مارکیٹ سے شروع ہو کر آج سیمنٹ، توانائی، کھاد، مالیاتی خدمات اور سرمایہ کاری جیسے اہم شعبوں تک پھیل چکا ہے۔یہ وہ شعبے ہیں جو کسی بھی ریاست کی معاشی اور سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھے جاتے ہیں۔اسی لیے عارف حبیب کو صرف ایک سرمایہ کار نہیں بلکہ نظام کے اندر موجود ایک طاقتور اسٹیک ہولڈر کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نجکاری ہمیشہ تنازع، شکوک اور سوالات کیساتھ جڑی رہی ہے۔ اسٹیل ملز، پی ٹی سی ایل اور توانائی کے اداروں کی نجکاری نے بارہا یہ بحث چھیڑی کہ آیا یہ فیصلے قومی مفاد میں تھے یا مخصوص طبقات کے فائدے کیلئے۔ آج جب پی آئی اے کی نجکاری ہوئی ہے تو یہی سوال ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ سامنے آ گیا ہے۔یہاں گھی کارپوریشن آف پاکستان کی مثال بھی اہم ہو جاتی ہے۔ 1970 کی دہائی میں قائم اس ادارے کو 1990 کی دہائی میں نجکاری کے ذریعے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا ۔ نتیجتاً نہ قیمتوں میں استحکام آیا، نہ عوامی مفاد کا تحفظ ممکن ہو سکا۔ اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ نجکاری محض ادارہ بیچنے کا نام نہیں بلکہ اسکے اثرات دہائیوں تک معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔حالیہ نجکاری میں حکومتِ پاکستان نے پی آئی اے کے 75 فیصد حصص ایک نجی کنسورشیم کو، جس کی قیادت عارف حبیب گروپ کر رہا ہے، تقریباً 135 ارب روپے میں فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن اس اعلان کے پیچھے موجود حقیقت کہیں زیادہ تلخ ہے۔ حکومت کو اس پوری رقم میں سے فوری طور پر صرف تقریباً 10 سے 11 ارب روپے نقد ملیں گے، جبکہ باقی تقریباً 125 ارب روپے حکومت کے خزانے میں نہیں جائیں گے بلکہ پی آئی اے میں سرمایہ کاری کے طور پر استعمال ہوں گے۔حکومتی بیانیے میں جس 55 ارب روپے کے فائدے کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل فوری آمدن نہیں بلکہ مستقبل کے اندازے ہیں، جن میں حکومت کے پاس موجود باقی 25 فیصد حصص کی نظریاتی قدر بھی شامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کو براہِ راست حاصل ہونیوالی رقم ساڑھے دس ارب کے قریب ہے، جبکہ باقی سب وعدے، تخمینے اور امکانات ہیں۔جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک جدید بوئنگ 777 طیارے کی قیمت تقریباً ایک سو پندرہ سے ایک سو پچیس ارب روپے کے درمیان ہے تو عوام کے ذہن میں ایک فطری اور تکلیف دہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر ایک جہاز اتنا مہنگا ہے تو پھر ایک سو پینتیس ارب روپے میں پوری قومی ایئرلائن، پی آئی اے، فروخت کرنے کا جواز کیسے پیدا کیا گیا؟ بظاہر یہ سودہ ایک طیارے کے بدلے پوری ایئرلائن کا تاثر دیتا ہے، مگر اصل تصویر اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور افسوسناک ہے ۔ پی آئی اے محض طیاروں کا مجموعہ نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط بدانتظامی،سیاسی مداخلت ، مسلسل خساروں، اربوں روپے کے قرض، غیر ضروری بھرتیوں اور ناقص فیصلوں کا بوجھ اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے ہے۔ نجکاری کے عمل میں سرمایہ کار صرف جہاز اور عمارتیں نہیں دیکھتا بلکہ وہ مستقبل کے خطرات، قانونی ذمہ داریوں اور ممکنہ مالی نقصانات کو بھی تولتا ہے۔ اسی لیے اکثر صورتوں میں حکومت قرض اپنے ذمے رکھتی ہے اور ادارہ کم قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے، جو عوام کیلئے مزید اذیت ناک حقیقت بن جاتا ہے۔ اعلامیے کے مطابق زمینی آپریشنز کی اپ گریڈیشن کیلئے پہلے سال ہی 125 ارب روپے کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو نجی شراکت داروں کی طویل المدتی دلچسپی اور ادارے کی بحالی کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔پی آئی اے کو اس حال تک پہنچانے کی ذمہ داری کسی ایک فرد، ایک افسر یا ایک حکومت پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ بحران مسلسل سیاسی مداخلت، میرٹ کے قتل، سفارش پر تعیناتیوں، ناتجربہ کار انتظامیہ اور احتساب کے فقدان کا منطقی نتیجہ ہے۔ اگر وقت پر جرات مندانہ فیصلے کیے جاتے، ناکارہ طیارے سکریپ میں بیچے جاتے، غیر ضروری اخراجات روکے جاتے اور بدانتظامی کے اصل ذمہ داروں کو بغیر کسی مصلحت کے فارغ کیا جاتا تو آج پی آئی اے کے قیمتی اثاثے، بین الاقوامی روٹس، لینڈنگ اسلاٹس، زمینیں اور عمارتیں محفوظ ہو سکتی تھیں ۔ پی آئی اے محض ایک ادارہ نہیں بلکہ پاکستان کی شناخت، ریاستی وقار اور قومی یادداشت کا حصہ ہے۔ اسے خسارے میں پہنچانے میں دہائیوں کی سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور ناقص فیصلے شامل رہے ہیں۔ اب وہی سیاسی نظام نجکاری کو واحد حل کے طور پر پیش کر رہا ہے، جہاں کارپوریٹ مفاد اور عوامی مفاد آمنے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ عارف حبیب کیلئے پی آئی اے ایک معاشی یونٹ ہو سکتا ہے، مگر عوام کیلئے یہ روزگار، شناخت اور قومی اثاثہ ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ نجکاری ہوئی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاست کارپوریٹ طاقت کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے، یا قومی اثاثے ایک بار پھر چند طاقتور ہاتھوں میں منتقل ہو گئے ہیں ۔جب پی آئی اے کے جہاز ہی ملک پاس نہ ہوں گے تو معیشت کیسے اڑان بھرے گی یہ حقیقت ہے کہ عارف حبیب اس نظام کی پیداوار بھی ہیں اور اس کے فائدہ اٹھانے والے بھی۔ اصل سوال افراد کا نہیں بلکہ نظام کا ہے اور پی آئی اے کی نجکاری نے اسی نظام کو ایک بار پھر کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔

