عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کیخلاف دائر مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔عالمی عدالت انصاف نے غزہ کے حق میں عبوری فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی بند کرے، عالمی عدالت انصاف کے ہنگامی اقداما ت 2-15 سے منظور ہوئے، 17میں سے 15ججوں نے فیصلے کی تائید کی۔عالمی عدالت انصاف نے غزہ نسل کشی کیس معطل کرنے کی اسرائیل درخواست مسترد کر دی اور قرار دیا کہ اسرائیل کیخلاف نسل کشی کیس خارج نہیں کریں گے۔عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کے مطالبات درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج کی بمباری سے 25 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، اسرائیل نے فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا، غزہ کے20 لاکھ سے زائد لوگ نفسیاتی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا ہیں۔عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کیے جانے کے جنوبی افریقا کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں، حماس حملے کے جواب میں اسرائیلی حملوں میں بہت جانی اور انفرااسٹرکچر نقصان ہوا ہے، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیلی حملوں کے خلاف قراردادیں پیش کی ہیں۔عالمی ادارہ انصاف نے غزہ میں انسانی نقصان پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ غزہ میں اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پرشہریوں کی اموات ہوئیں اور عدالت غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے۔ جنوبی افریقا کے عائد کردہ الزامات میں سے کچھ درست ہیں اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے، اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں، اسرائیل کے خلاف کچھ الزامات نسل کشی کنونشن کی دفعات میں آتے ہیں۔خیال رہے کہ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تھا۔دوسری جانب اسرائیل کی سرکاری ایئرلائن نے جنوبی افریقہ کیلئے براہ راست پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی ایئرلائن کا کہنا ہے کہ جوہانسبرگ کیلئے پروازیں مارچ کے آخر سے معطل رہیں گی۔ پروازیں معطل کرنے کا فیصلہ آئی سی جے کیس کے تناظر میں جنوبی افریقہ جانے کی اسرائیلیوں کی ڈیمانڈ میں کمی آنے پر کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 25 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ خوراک کی قلت الگ ہے۔ اس صورت حال نے غزہ کو جہنم بنادیا۔ فلسطین دنیا کا مظلوم ترین ملک ہے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی جبر اور استبداد کا سامنا ہے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور چن چن کر مسلمانوں کو گولی کے نشانے پر رکھ کر قتل کیا جارہا ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی ہے اور انسانی حقوق کے اداروں کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی اور اسلامی امہ کو اپنے مفادات عزیز ہیں حالانکہ فلسطین پوری دنیا کا مسئلہ بن ہے حیرت کا مقام ہے کہ انسانیت کا درد رکھنے والے غیر مسلم یہ حقیقت مانتے ہیں کہ فلسطین میںظلم ہورہا ہے مگر اسلامی دنیا خاموش رہی۔ عرب ممالک دور دراز ممالک میں جہادی سرگرمیوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں مگر مسئلہ فلسطین کو انہوں نے مسلسل نظر انداز کیا مظلوم فلسطینیوں کی آواز ان کو سنائی نہیں دیں۔ امریکہ کے مفادات کیلئے عالم اسلام نے جنگیں لڑیں اور ان جنگوں کو مقدس عنوان دے کر خرچہ بھی برداشت کیا مگر فلسطین کے مسئلہ پر انہوںنے مجرمانہ غفلت برتی ۔کیا سامراجی چکر میں آکر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالا گیا ۔ اس سلسلے میں جنوبی افریقہ کا کردار قابل تحسین ہے!۔بلاشبہ جنگ کسی چیز کا حل نہیں لاتی سوائے مزید جنگ، زیادہ نفرت، زیادہ اذیت اور زیادہ تباہی کے۔عالمی عدالت انصاف کافیصلہ فلسطینیوں کےلئے تازہ ہوا کاجھونکا ہے ۔دنیا بھرمیں کاخیرمقدم کیاجارہاہے اوراب اس پر جلد از جلد عملدر آمد ہونا چاہیے ۔ پاکستان نے اسرائیل کی غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو نسل کشی روکنے اور انسانی امداد کیلئے فوری اقدامات کا حکم دیا۔ عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل کے خلاف کیس سننے کا دائرہ اختیار ہے، غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی ضرورت ہے، سات اکتوبر سے اسرائیل فوجی جارحیت اور مجرمانہ کارروائیاں کر رہا ہے ۔ عدالتی فیصلے کو انصاف کے حصول کیلئے اہم سنگ میل سمجھتے ہیں، اسرائیل کے بین الاقوامی احتساب کیلئے بھی فیصلہ اہم ہے۔ پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتا ہے، فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کیلئے غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں، پاکستان نے اسی جذبے سے جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کی۔
مہنگائی میں مزیداضافہ
ادارہ شماریات نے مہنگائی سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی ۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی سالانہ شرح 43.79 فیصد پر آگئی-ایک ہفتے میں15 اشیا مہنگی-13کی قیمتوں میں کمی اور23اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہیں – ایک ہفتے میں چکن3.31-تیاردال1.32فیصد ،گڑ 0.98اورتیار چائے 0.92فیصد مہنگی ہوئی جبکہ بیف- انڈے-آٹا-ایل پی اورجلانےوالی لکڑی کی قیمت بھی اضافہ ہواتاہم ایک ہفتے میں ٹماٹر14.14-آلو5.06 فیصد اورپیاز1.64فیصد سستا ہوا-ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں لہسن-دال چنا اور کیلے بھی سستے ہوئے۔پے درپے مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقہ کےلئے دووقت کی روٹی کماناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئے گنا اضافہ ہوچکا ہے اور غریب ڈیفالٹ کرگیاہے۔ حکمرانی کی سوچ انتہائی فرسودہ اور پوری پاکستانی قوم کو کشکول اٹھانے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہیں ، حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں سے بیزار ہیں، ہر گزرتے دن کیساتھ اذیت ان کی برداشت سے باہر ہورہی ہے ۔پہلے ہی غریبوں کا جینا بہت محال تھا اب نا ممکن ہورہا ہے ، غربت کی لکیر سے نیچے ہجوم بڑھ رہا ہے۔ آئے روز بجلی اور گیس کی قیمتوں میںاضافہ ہورہاہے جس کابراہ راست اثرمہنگائی کاپڑتا ہے اورہرچیزمہنگی ہوجاتی ہے ۔ نگران حکومت تو چنددنوں کی مہمان ہے۔ عام انتخابات میں حصہ لینی والی سیاسی جماعتیں پتہ نہیں کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگ رہی ہیں اورکیسے ان کاسامناکررہی ہیں ۔ہرچیز کاحل موجودہوتا ہے آخر ایسی کیا جوہات ہیں کہ اشیائے خوردونوش میں تیزی سے اضافہ جاری ہے ،مرغی کی قیمتوں کو پر لگے ہوئے ہیں اورانڈے بھی خریدنامشکل ہوگئے ہیں۔ اب تو مہنگائی اتنی تیزی سے ہورہی ہے کہ چلنے میں بھی مشکل پیدا کررہے ہیں۔ کیا ملکی معیشت کو کنٹرول کرنے کا طریقہ صرف یہی تھا کہ جو آئی ایم ایف نے تجویز کیا ہے یعنی غریبوں کو ریلیف دینے والی سبسڈیز کا خاتمہ اور ٹیکسوں کی شرح میں نہ صرف اضافہ بلکہ مزید ٹیکس بھی عائد کردیے جائیں ۔ درحقیقت یہ راستہ تباہی کا راستہ ہے اور بہت تیزی سے دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنے والا بھی ہے کیونکہ غریبوں کو ریلیف نہ دینے اور ٹیکسوں میں اضافے سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زیادہ ٹیکسوں کے باعث کاروبار بھی تباہ ہو جاتے ہیں ۔ویسے بھی آئی ایم ایف کو اپنے قرضوں کی واپسی سے کوئی سروکار نہیں ، وہ اس سے کہیں زیادہ پیسے وصول کر چکا ہے جو اس نے ہمیں اب تک دیے ہیں ۔ جب تک ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے آئی ایم ایف پر انحصار کرتے اور اس کی ڈکٹیشن لیتے رہیں گے ، ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے بلکہ مزید دھنستے جائیں گے ۔آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعدبعد مہنگائی کا ایک طوفان آیاہواہے اور ہر چیز پر نئے ٹیکس لگ گئے ہیں اور تمام بنیادی ضرورت کی اشیاءعوام کی پہنچ سے باہر ہوہو گئی ہیں ، آج یہ حالت ہے کہ غریب لوگ گھر کا ماہانہ خرچ پورا کرنے سے بھی عاجز آچکے ہیں۔ لہٰذامہنگائی میں کمی کےلئے خاطرخواہ اقدامات کئے جائیں۔
اداریہ
کالم
عالمی عدالت انصاف کاخوش آئندفیصلہ
- by web desk
- جنوری 28, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1434 Views
- 2 سال ago

