کالم

عالمی گندھارا کانفرنس۔ایک جائزہ

جولائی سے اسلام آباد میں عالمی گندھارا کانفرنس منعقد ہو رہی ہے جس میں صدر عارف علوی،بلاول بھٹو اور وزیر مذہبی امور شریک ہےں علاوہ ازیں وزیراعظم مہمان خصوصی ہےں اور اس کانفرنس میں 27سے زائد ممالک کے وفود شامل ہےں ۔یاد رہے کہ اس کی میزبانی کے فرائض گندھارا ٹاسک فورس کے چیئرمین رمیش کمار ادا کر رہے ہےں ۔
اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کانفرنس میں قدیم گندھارا ثقافت اور بدھ مذہب کے ماہرین شامل ہےں ۔اس بابت کسے معلوم نہےں کہ پاکستان کے علاقے میں گندھارا کی تہذیب (500 قبل مسیح سے 10 عیسوی)اور وادی سندھ کی تہذیب (ہڑپہ 7 قبل مسیح اور موئنجودڑو 4 قبل مسیح) دنیا کی دو بڑی قدیم تہذیبیں تھیں۔گندھارا وہ خطہ تھا جو اب وادی پشاور، مردان، سوات، دیر، مالاکنڈ، باجوڑ اور ٹیکسلا پر مشتمل ہے۔ اسی خطے میں گندھارا تہذیب ابھری اور جاپان اور کوریا تک بدھ مت کا گہوارہ بنی۔یاد رہے کہ بیسویں صدی میں دریافت ہونے والی گندھارا تہذیب کا دلچسپ ریکارڈ ٹیکسلا، سوات اور دیگر حصوں میں پھیلے ہوئے آثار قدیمہ میں پایا جاتا ہے۔ قدیم شاہراہِ ریشم پر پتھروں پر نقش و نگار بھی گندھارا کی تاریخ کا دلچسپ ریکارڈ فراہم کرتے ہیں۔علاوہ ازیںٹیکسلا شاندار بدھ تہذیب اور 3000 سال پرانا گندھارا کا مرکز ہے۔ ٹیکسلا نے 326 قبل مسیح میں مقدونیہ سے سکندر اعظم کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا جس کے ساتھ یونانی ثقافت کا اثر دنیا کے اس حصے میں آیا۔ٹیکسلا بعد میں موری خاندان کے زیر تحت آیا اور اشوک کے دور میں ترقی کی ایک قابل ذکر سطح پر پہنچ گیا۔سیکڑوں برس قبل، بدھ مت کو ریاستی مذہب کے طور پر اپنایا گیا، جو 10 AD تک 1000 سال سے زیادہ عرصے تک ترقی کرتا رہا اور غالب رہااس دوران ٹیکسلا، سوات اور چارسدہ ثقافت، تجارت اور تعلیم کے تین اہم مراکز بن گئے۔ یونانی تہذیب کے ساتھ مل کر سینکڑوں خانقاہیں اور سٹوپا بنائے گئے۔ یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ گندھارا تہذیب نہ صرف روحانی اثر و رسوخ کا مرکز تھی بلکہ ثقافت، فن اور تعلیم کا گہوارہ بھی تھی۔ انہی مراکز سے مجسمہ سازی کے ایک منفرد فن نے جنم لیا جسے پوری دنیا میں گندھارا آرٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔آج گندھارا کے مجسمے انگلستان، فرانس، جرمنی، امریکہ، جاپان، کوریا اور چین کے عجائب گھروں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں بہت سے پرائیویٹ کلیکشنز کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عجائب گھروں میں بھی ان کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ قابل ذکر ہے کہ بدھ مت نے پاکستان میں فن اور فن تعمیر کی ایک یادگار اور بھرپور میراث چھوڑی ہے اور کئی صدیاں گزرنے کے باوجود، گندھارا کے علاقے نے دستکاری اور فن میں ورثے کو محفوظ رکھااور اس وراثت کا زیادہ تر حصہ آج بھی پاکستان میں نظر آتا ہے۔واضح رہے کہ مہاتما بدھ کی ان ابتدائی نشانیوں میں سے کچھ میں بدھ کے قدموں کے نشانات شامل ہیں۔ قدیم تصاویر میں سے بدھ کے قدموں کے نشان وادی سوات میں پائے گئے تھے اور اب سوات کے عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔یاد رہے کہ جب مہاتما بدھ کا انتقال ہوا تو ان کی باقیات سات بادشاہوں میں تقسیم کی گئیں جنہوں نے ان پر سٹوپا بنائے تھے۔ جمال گڑھا میں ہرمراجیکا اسٹوپا (ٹیکسلا) اور بٹکرہا (سوات) اسٹوپا بادشاہ اشوک کے حکم پر تعمیر کیے گئے تھے اور ان میں بدھ کے حقیقی آثار موجود تھے۔ثقافتی ماہرین کے بقول سوات، رومانوی اور خوبصورتی کی سرزمین، پوری دنیا میں بدھ مت کی مقدس سرزمین کے طور پر جانی جاتی ہے اور سوات کو بدھ مت کی زیارت گاہ کے طور پر شہرت حاصل ہے۔بدھ مت کی روایت ہے کہ بدھا خود گواتما بدھ کے طور پر اپنے آخری دور میں سوات آئے تھے اور یہاں کے لوگوں کو تبلیغ کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سوات چودہ سو شاندار اور خوبصورت اسٹوپاوں اور خانقاہوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں پوجا اور تعلیم کےلئے بدھ مت کے پینتھیون کی 6000 سونے کے عکس رکھے گئے تھے۔اب صرف وادی سوات میں 400 سے زیادہ بدھ مت کے مقامات ہیں اور 160 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں۔ سوات میں بدھ مت کی اہم کھدائیوں میں سے ایک اہم بٹکارہ اول ہے جس میں بدھ کے اصل آثار موجود ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں موجود بدھ یادگاروں میں سے چند تاریخی اور مذہبی نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہیں۔دھراراجا، جو موری بادشاہ اشوک کا لقب تھا، نے تیسری صدی کے وسط میں ٹیکسلا میں بدھ مت کی سب سے قدیم یادگار دھرمراجیکا اسٹوپا تعمیر کیا۔دھرمراجیکا اسٹوپا میں بدھا کے مقدس آثار اور اوشیشوں کی یاد میں چاندی کا طومار تھا۔ یہاں سے سونے اور چاندی کے سکے، جواہرات، زیورات اور دیگر نوادرات کا خزانہ دریافت ہوا اور ٹیکسلا کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے۔علاوہ ازیںتخت بھائی ایک اور معروف اور محفوظ یادگار ہے، جو مردان کے شمال مشرق میں تقریباً 10 میل کے فاصلے پر چٹان پر واقع بدھ خانقاہ ہے۔ یہ یادگار دو سے پانچ صدی عیسوی کا ہے اور زمین سے 600 فٹ اوپر کھڑا ہے ۔ ماہرین کے بقول ایک خصوصیت جو اس سائٹ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا تعمیراتی تنوع اور اس کی رومانوی ترتیب ہے اور اونچائی نے اس یادگار کے تحفظ میں مدد کی ہے۔یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ تخت بھائی کے پاس بدھ مت کے قدیم آثار کا ذخیرہ تھا۔ تخت بھائی سے مختلف سائز کے مہاتما بدھ اور بدھ ستواس کی بہت سے عجائب گھروں کی زینت ہے۔ گندھارا کے مجسموں کے کچھ بہترین نمونے، جو اب یورپ کے عجائب گھروں میں پائے جاتے ہیں، اصل میں تخت بھائی سے برآمد ہوئے تھے۔
ثقافتی مبصرین کے مطابق توقع کی جانی چاہےے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ مذہبی سیاحت میں مزید معاونت ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے