گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے بجٹ کے اعلان سے قبل اور بعد یا حکومت کسی چیز کو اعلانیہ مہنگی کررہی ہو تو ہمارے معزز صدور ، وزرائے اعظم ، وزراءاور دیگر حکومتی عہدہ داروں سے سنتے آرہے ہیں کہ عام آدمی پر بوجھ نہیں ہوگا،یا عام آدمی اس سے متاثر نہیںہوگا، عام آدمی کو ریلیف ملے گا ،وغیرہ لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ "عام آدمی”کس مخلوق کا نام ہے؟کیونکہ حکمرانوں کے اقدامات سے شیر خوار بچے سے بوڑھے بزرگوں تک سب متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً شیر خوار بچے کے دودھ ،کپڑے، جوتے، کھلونے، ادویات اور دیگر خوارک پر بھی جی ایس ٹی لیا جاتا ہے، بوڑھے بزرگوں کی خوراک ، ادویات ، کپڑے سمیت ہر چیز پر جی ایس ٹی لیا جاتا ہے، اسی طرح مزدوروں، کاریگروں، اساتذہ ، دیگر ملازمین اور سب کی خوراک ، کپڑے، ادویات ، بجلی سمیت ہر چیز پر جی ایس ٹی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ،اسی طرح بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوجاتی ہیں تو شیرخوار بچے، بوڑھے بزرگ،مزدور، اساتذہ ، ملازمین اور سب کی ہر چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔اسی طرح صنعت کار پر اضافی ٹیکس لگائیں یا ان کےلئے بجلی اور توانائی کے دیگر ذرائع مہنگے کریں تو وہ فیکٹری میں بنائی گئی چیزیں مہنگی کرتے ہیں ،جب وہ چیزیں مہنگی کرتے ہیں تو شیر خوار بچے ، بوڑھے بزرگ،مزدور وغیرہ پر اثر پڑتاہے اور ان پر بوجھ آتا ہے۔ اسی طرح کسان کے لئے بجلی، ڈیزل، پٹرول ، گیس ، کھادیں اور زرعی ادویات مہنگی کرتے ہیں یا ان پر اضافی ٹیکس لگاتے ہیں تووہ زرعی اجناس مہنگے داموں فروخت کرتا ہے تو اس سے شیر خوار بچے ،بوڑھے بزرگ اور مزدور سمیت سب کی چیزیںمہنگی ہوجاتی ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ شیر خوار بچے، بوڑھے بزرگ، مزدور،اساتذہ کرام ، ملازمین وغیرہ عام آدمی نہیں ہیں تو پھر عام آدمی کسی چیز کا نام ہے؟ہوسکتا ہے کہ عام آدمی اشرافیہ یا خلائی مخلوق کا نام ہو کیونکہ بجٹ یا چیزیں مہنگی ہوجائیں تو اشرافیہ پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا ہے اور نہ ہی وہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کو گھر ، گاڑی ،سیکورٹی، علاج ، بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات، فون ، کھانا، بٹیر، سیروتفریح، حج و عمرہ وغیرہ سب فری ہیں،اسی طرح خلائی مخلوق روٹی، کپڑے اور مکان سے مبرا ہے،کوئی چیز مہنگی ہوجائے یا جی ٹی ایس میں اضافہ ہوجائے یا بجلی ،گیس ،ڈیزل ، پٹرول وغیرہ سب چیزیں مہنگی کریں تو ان پر بوجھ نہیں بڑھتا اور نہ ہی ان پر اثر پڑتا ہے۔ عام آدمی اشرافیہ یا خلائی مخلوق میں سے ایک ہے تو اس پر بھی مزید غور کی ضرورت ہے کہ ان میں سے عام آدمی کون ہے؟سنا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف نے بھی کہا کہ بجٹ میں عام آدمی پر بوجھ نہ بڑھے۔یہ حیران کن، دلچسپ اور انوکھی بات نہیں ہے کہ آئی ایم ایف نے بھی عام آدمی کی بات کی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے کھبی یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ مفت بجلی ، پٹرول ، گیس وغیرہ کی مراعاتیں ختم کی جائیں۔اگر آئی ایم ایف یہ مطالبہ کرے کہ مفت بجلی ، گیس ، پٹرول وغیرہ دیگر مراعات ختم کی جائیں تو اس سے یقینا عام آدمی شدید متاثر ہوگا۔ عوام کے ٹیکسوں پر بیٹراور دیگر طرح طرح کے کھانے مفت کھائے جاتے ہیں،اگر ان کو ختم کیا جائے تو اس سے بھی یقینا عام آدمی متاثر ہوگا۔جون جولائی اوراگست کے مہینوں میں وطن عزیز میں شدید گرمی ہوتی ہے لیکن یہ عام آدمی تھری پیس زیب تن کرتے ہیں اور ایئر کنڈیشن امیر عوام کے ٹیکسوں پر چل رہے ہوتے ہیں،عوام سخت گرمی اور لوڈشیڈنگ سے پریشان ہوتے ہیں لیکن یہ عام آدمی ایئرکنڈیشنز سے ماحول کو سرد بنا دیتے ہیں۔یہ عام آدمی کسی روڈ سے گذرتے ہیں تو روڈ ز بند کیے جاتے ہیں جس سے وی وی آئی پی عوام گھنٹوں ذلیل و خوار رہتی ہے،اسی طرح ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ان ایمبولینسوں میں وی آئی پی مریض ہسپتال پہنچنے سے قبل اس فانی دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔جب عام آدمی گذرتے ہیں تو ان کے پاس اتنی زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں، یہ گمان ہونے لگاتا ہے کہ یہ لاﺅلشکر کے ساتھ کسی محاذ پر جارہے ہیں اورجنگ جیت کر آئیں گے۔یہ سب کروڑوں کی گاڑیاں،ان میں پٹرول ، ملازمین وغیرہ سب امیر عوام کے ٹیکسوں سے ہوتا ہے۔ہمارے حکمران ٹیکس عام آدمی کی بجائے امیر عوام پر لگاتے ہیں۔ دنیا کا اصول بھی یہی ہے کہ عام آدمی کی بجائے امیروں پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔یہ عوام امیر ہے ،اس لئے ان کے ٹیکسوں پر عام آدمی کو بجلی، گیس ، پٹرول ، فون ، گاڑی، گھر، کھانے ،سیرو تفریح اور علاج سمیت سب کچھ مفت ہے۔ جب ہمارے وزیر خزانہ ماہر معیشت محترم اسحاق ڈار صاحب عوام کو مہنگائی کی نوید سنا رہے تھے تو انھوں نے قیمتی تھری پیس زیب تن کیا ہوا تھا۔یقینا امیر عوام نے ضرور سوچا ہوگا کہ یہ عام آدمی کی بجائے امیر عوام پر ٹیکس بڑھائیں گے اور توانائی کے ذرائع میں اضافہ کریں گے۔توانائی کے ذرائع میں اضافے سے مراد اپنے پاﺅں پر کلہاڑی کے وار کرنا ہے۔بجلی، گیس ، پٹرول ،ڈیزل میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے کیونکہ پروڈکس پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔جب چیز پر لاگت زیادہ آئے گی تو وہ سستی کیسے فروخت کریں گے ۔توانائی کے ذرائع اور ٹیکسوں میں اضافے سے مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ، اس کے نتیجے میں سیل کم ہوجاتی ہے، معیشت کا پہیہ سست ہوجاتا ہے۔یہ کوئی پیچیدہ فارمولہ نہیں بلکہ اس کے بارے میں سب جانتے ہیں ۔قرضوں سے ملک کے حالات میں بہتری نہیں آسکتی ہے ۔آئی ایم ایف سے سوا ارب ڈالر کے لئے سب کچھ کررہے ہیں جس کے نتائج امیر عوام بھگتیں گے۔عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عام آدمی کے دبئی، لندن، امریکہ ، کینیڈا، آسڑیلیا سمیت مختلف ممالک میں بزنس اورجائیدادیں ہیں۔ملک غریب اور مقروض ہوگیا لیکن عام آدمی کی جائیدادوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور وہ امیر سے امیر ترین ہوگئے ہیں۔وطن عزیز پاکستان کے موجودہ حالات کے سیاست دانوں سمیت سب ذمہ دار ہیں،ان کے باعث عوام سخت پریشان ہے لیکن مراعات یافتہ طبقہ اپنی مراعاتیں ختم یا کم کرنے کےلئے بالکل آمادہ نہیں ہے۔وطن عزیز پاکستان میں ستر فی صد سے زیادہ لوگ خطہ غربت سے نیچے زیست بسر کررہے تھے اب تو اس میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔لوگوں کےلئے روزمرہ اشیاءخریدنا محال ہوگیا ہے اور لوگوں کی قوت خریدختم ہوگئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار طبقہ اپنی سوچ بدلے ، ملک اور عوام کے بارے میں سوچیں، سب کےلئے بلا تفریق مراعاتیں ختم کریں، مفت بجلی ، گیس ، پٹرول اور دیگر مراعاتیں دینا بند کریں، گاڑی ، گھر، پٹرول، بجلی اور سب اپنے جیب سے خریدیں۔عوام کے ٹیکسوں پر صدر ہاﺅس، وزیر اعظم ہاﺅس ، وزرائے اعلی ہاﺅسز وغیرہ میں دعوتوں اور کھانوںکا سلسلہ ہمیشہ کےلئے ختم کریں۔عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیے ۔قارئین کرام! میڈیا ٹاک یا کانفرنسز میںعام آدمی کا لفظ غریب عوام کےلئے قطعی استعمال نہیں ہوتاہے بلکہ ذومعنی لفظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یہ دراصل مراعات یافتہ اوراشرافیہ کے لئے اشارہ ہوتا ہے کہ آپ فکر نہ کریں ،آپ پر کوئی بوجھ نہیں بڑھے گا، آپ کی مراعاتوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔بحرحال اب اشرافیہ کو سوچ وبچار اورطور طریقے میں تبدیلی لانی چاہیے ۔ مثبت تبدیلی اور سادگی اپنانے سے ملک اور عوام کے حالات بدل سکتے ہیں۔
کالم
عام آدمی۔۔۔!
- by Daily Pakistan
- فروری 19, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 564 Views
- 2 سال ago