سبھی جانتے ہےں کہ 8فروری کے انتخابات میں محض دو ہفتے رہ گئے ہےں اسی وجہ سے بجا طور پر ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہےں ۔مجموعی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار سیاسی حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ باد ی النظر میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مابین ہے اور اس میں بھی ن لیگ کو واضح سبقت نظر آتی ہے ۔اسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سیاسی حلقوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ چوں کہ پی ٹی آئی کو ہر لحاظ سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اس وجہ سے پی ٹی آئی کی ہار نوشتہ دیوار ہے ۔اس ضمن میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس ضمن میں عمران خان بھی گزشتہ کچھ عرصے سے جو منفی رویہ اپنائے ہوئے ہےں اس کے نتیجے میں ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد بری طرح بددل ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ موصوف کی انتخابی مہم بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور وہ اس قدر ذہنی دباومیں نظر آتے ہےں کہ انہوں نے اڈیالہ جیل کے حکام کے ساتھ گالی گلوچ اور بد تمیزی کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے جس کے منفی اثرات روز بروز واضح ہو تے جا رہے ہےں ۔
دوسری جانب نواز شریف اور ان کی پارٹی خاصے مثبت ڈھنگ سے پیش رفت کر رہی ہے تبھی توحافظ آباد میں موصوف نے انتہائی بڑے اجتماع سے خطاب کر تے ہوئے اپنی گزشتہ حکومت کی کارگردگی بیان کی دوسری جانب مانسہرہ میں نواز شریف نے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے سیاسی اجتماع کیا جس کے بعد خیبر پختوخواہ میں بالعموم اور ہری پور ،ایبٹ آباد کے نواح میں ن لیگ کی سیاسی مقبولیت میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے ۔یوں یہ بات غالبا ً کہی جا سکتی ہے کہ صوبہ پنجاب کی حد تک تو مسلم لیگ ن بڑی حد تک کلین سیوپ کر سکتی ہے البتہ جن مقامات پر دیگر جماعتوں سے مقابلہ ہوگا وہاں صورتحال مختلف ہوسکتی ہے ۔ یوں مجموعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اندرون سندھ تو پی پی کو سبقت حاصل ہے البتہ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم خاصے بہتر نتائج دے سکتی ہے جب کہ بلوچستان میں پی پی، ن لیگ اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کو خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔اس حوالے سے مجموعی سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو یہ امر واضح طور پر نظر آتا ہے کہ 8فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی صورتحال کسی بھی طور قابل رشک قرار نہےں دی جا سکتی اور اس تمام تر صورتحال کی ذمہ داری صرف اور صرف عمران خان اور اس کے حوایوں پر عائد ہوتی ہے خاص طور پر گزشتہ کچھ عرصے سے موصوف نے عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف جو غلیظ مہم شروع کی ہوئی ہے اس کی وجہ سے اہل پاکستان کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی سے نالاں ہے اور ان کے یہاں یہ احساس پختہ تر ہوتا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت دراصل بھارت کے مفادات کو پروان چڑھا رہی ہے ۔اسی ضمن میں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی عام انتخابات کے بائیکاٹ کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہےں کہ کیوں کہ ان کے بقول پارٹی قیادت نے سارے ٹکٹ وکیلوں اور چھاتہ برداروں کو دے دےے ہےں جبکہ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو پوری طرح دیوار سے لگا دیا گیا ہے اس کے علاوہ ریاست کے حامی اور ریاست مخالف گروہوں کے درمیان پی ٹی آئی کی اندرونی رسہ کشی انتخابی کارکردگی کو متاثر کررہی ہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق عمران خان سخت ذہنی دباﺅ کا شکار ہےں جس کا اظہار وہ جیل حکام کے ساتھ آئے روز تلخ کلامی کے ذریعے کرتے آرہے ہےں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل بھی موصوف الیکشن کمیشن حکام کیساتھ بات کرتے ہوئے بھی ذہنی توازن کھو بیٹھے اور اکثر جیل سٹاف کیساتھ ترش ان کا روز کا معمول بن چکا ہے ۔کبھی کہتے ہےں کہ کھانا گرم نہیں، کبھی اس میں زہر تو نہیں، کبھی میں مر جاوں گا، کبھی میں تمہیں نوکری سے نکال دونگا اور جیل میں ڈال دوں گا اور سکون تو صرف قبر میں ملتاہے جیسے الفاظ ادا کرتے رہتے ہےں ۔اس تما م صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس تمام صورتحال میں ایک بات تو صاف نظر آتی ہے کہ عمران خان سخت ذہنی دباو اور انتشار کا شکار ہےں ،ایسے میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ موصوف کو صحت کاملہ عطا فرمائے ۔دوسری جانب یہ توقع بھی کی جانی چاہےے کہ آئندہ انتخابات ہر لحاظ سے خوشگوار ماحول میں انجام پذیر ہوں اور ملک و قوم کے لےے خیر کا وسیلہ ثابت ہو۔
کالم
عام انتخابات اور پی ٹی آئی
- by web desk
- جنوری 24, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 540 Views
- 1 سال ago