محسن انسانیت، حضرت محمدﷺ کے پیغمبرانہ امتیاز اور اوصاف میں ایک امتیازی خصوصیت آپ کی” شان رحمة لّلعالمین“ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: ترجمہ:اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔آپ کی حیات طیبہ کفّار و مشرکین اور بد ترین دشمنوں سے حسن سلوک، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے،لیکن اس کا ایک اہم اور تاریخ ساز واقعہ”فتح مکہ“ کا ہے کہ جب آپ کو اپنے دشمنوں کفار مکہ پر کامل اختیار و اقتدار حاصل تھا، اوراسلام، پیغمبر اسلام کے دشمن سرجھکائے کھڑے تھے۔ توتاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے کفارِ قریش کے ساتھ جو سلوک اور رویہ اپنایا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ نے نہ صرف ان کو معاف کر دیا بلکہ ان میں سے بعض کے گھروں کو جائے پناہ بھی بنا دیا۔ ہمارے ہاں آج کل مئی کے واقعات کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے اور انہیں عبرتناک انجام تک پہنچانے کےلئے بڑی بڑی باتیں اور فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ ان کا جرم بہت بڑا ہی سہی مگر بحیثیت مسلمان ہمیں فتح مکہ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انکے لئے عام معافی کا اعلان کر دینا چاہیے۔ یہ سب اپنے ہی لوگ ہیں۔ وطن عزیز کے شہری اس کے باشندے ہیں۔ غلطی کس سے نہیں ہوتی مگر اس کامطلب یہ تو نہیں کہ انہیں سولی پر ہی لٹکا دیا جائے۔ بہتر تو ہوگا کہ انہیں معاف کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے کاموں پر شرمندہ ہوں اور آئندہ ایسے اعمال سے توبہ کر لیں۔ رسول اکرم ﷺ کی تیئس سالہ زندگی تمام پہلوو¿ں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔آپ نے جنگ وجدل کی بجائے مفاہمتی عمل سے لوگوں کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔حضوراکرم نے تکریم انسان کی داغ بیل ڈالی۔ انسان تو انسان آپ نے جانوروں اور شجر و حجر کی بربادی کو ردّ کر دیا۔ دراصل ہمارا معاشرہ سیاسی حالات کی وجہ سے نہ صرف عوام اور معاشرہ بے بسی اور بے کسی کی حالت میں ہے بلکہ وطن عزیز بھی سخت ترین امتحان اور آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ہماری سیاست سے رواداری اور برداشت کا عنصر ناپید ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلئے ہر غلط حربہ اپنا یا جا رہا ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ اسلام میں ایسے رویوں کی سخت ممانعت ہے اور رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، ہم جان بوجھ کر اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ آپس میں لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہو یا ملک کی مختلف سیاسی جماعتوںکے اختلافی امور ہوں، سب کا حل مفاہمتی عمل ہی کے ذریعے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔مفاہمتی عمل کا منشاءیہ ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام کے درمیان تلخی کی بجائے جذبہ خیر سگالی کو فروغ حاصل ہو اور دنیا میںامن و سلامتی اورپیار و محبت کی فضا قائم ہو۔حضور اکرمﷺ کے سامنے اہل طائف کا معاملہ ہو،یا نجران کے عیسائیوں کامعاملہ ہو ،یہود کے ساتھ برتاﺅ کا معاملہ ہو، آپ کی طرف سے مفاہمانہ طرز عمل میں کمی نہیں آئی۔ غزوہ بدر کے میدان میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے افراد ا±س پانی کے حوض پر آئے جو کہ اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا ، مسلمانوں کی فوج نے حوض اپنی ضروریات کے لئے بنایا تھا۔ مشرکین کو پانی دینے سے روکنا چاہا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ انہیں پانی سے نہ روکو،بلکہ انہیں پانی پینے دو۔اس واقعے میں حضور اکرم کا مفاہمتی عمل میدان جنگ میں بھی نظر آتا ہے جو انسانی عظمت و رفعت کی بلند ترین مثال کہلائی جا سکتی ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہم اس رسولﷺ کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔جن کی رحمت اور محبت اپنے اور غیروں سب کے لئے ہے۔ آپ کے لائے ہوئے نظام کا مقصدصرف اپنی فلاح اور مسلمانوں ہی کی بہبود نہیں تھا،بلکہ اس کا مقصدانسانیت کی فلاح اور ترقی تھا۔آپ کی سیرت کا یہ خاصا رہا ہے کہ مسائل سے الجھنے کی بجائے ان کے حل کے لئے افہام و تفہیم کی راہیں نکالی جائیں، تاکہ مفامت کا عمل آگے بڑھے ۔سیاست دانوں کے عمومی رویے میں تحمل اور برداشت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ماحول تو پہلے ہی اتنا خوشگوار نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ حالات بھی بگڑے ہوئے ہیں ۔شائستگی، خیالات کی د±رستگی، غور و فکر کی جگہ دشنام طرازی نے لے لی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے اخلاقیات سے ا±تر کر ذاتیات پر آجاتی ہیں۔ ایسا کوئی دن نہیں جاتا کہ ایک دوسرے پر لفظی حملے نہ کیے جاتے ہوں، طعن و تشنیع کی تو جیسے عادت سی ہوگئی ہو۔اگر خدانخواستہ حالات مزید قابو سے باہر ہوگئے تو، حالات کو بہتری کی جانب لانا مشکل ہوجائے گا۔
موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں بیان کی جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کے نصوص واضح کیے جائیں تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو۔ ا±س کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور ا±ن کے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے۔