گزشتہ دنوں اےک بےن الاقوامی جرےدے دی اکانومسٹ کے ادارے انٹےلی جنس ےونٹ نے اےک بےن الاقوامی رپورٹ شائع کی جس مےں نئے جمہوری انڈےکس کا اجراءکےا گےا ہے ۔اس مےں پاکستان کی جمہورےت کو ہائبرڈ (hybrid) کا نام دےا گےا ہے۔اس رپورٹ مےں167ملکوں کی جمہورےت کا تجزےہ کرتے ہوئے درجہ بندی مےں ناروے کو پہلا نمبر ،بھارت کو 46واں ،بنگلہ دےش کو 75واں اور پاکستان کو 104واں نمبر دےا گےا ہے ۔اس رپورٹ مےں مزےد کہا گےا ہے کہ پاکستان مےں 75سال سے نہ تو مکمل طور پر جمہورےت بحال ہوئی ہے اور نہ مکمل طور پر آمرےت ۔معزز قارئےن جمہورےت ےونانی زبان کے لفظ ڈےموکرےسی کا نزدےک ترےن ترجمہ ہے ۔ افلاطون نے تےن ہزار سال پہلے ےہ لفظ اےجاد کےا ۔ےہ لفظ ڈےمو اور کرےسی سے مل کر بنا ہے ۔ےونانی زبان مےں عوام کو ڈےمو کہتے تھے اور وہاں ےہ لفظ اب بھی اسی شکل مےں رائج ہے ۔ کرےسی کا نزدےک ترےن ترجمہ حاکمےت اعلیٰ ہے چنانچہ ےونانی مےں ڈےموکرےسی کا لفظ عوامی حکومت کے معنوں مےں آتا ہے ۔فارسی مےں اس کا ترجمہ ”مردم سالاری“ ہے اور موجودہ دور مےں ےہ لفظ بے حد مقبول ہے ۔ارسطو نے ہی نوکر شاہی ،مطلق العنانی اور مذہبی راج کےلئے بےورو،آٹو اور تھےو کے الفاظ اےجاد کئے ۔چنانچہ جس ملک مےں سرکاری نوکروں کا ٹولہ حکمرانی کرتا ہے وہ بےورو کرےسی کا ملک کہلاتا ہے ۔ جہاں اےک مطلق العنان شخص عوامی حاکمےت کے اصول غصب کر کے غضب ڈھا رہا ہو وہاں آٹو کرےسی ہوتی ہے اور جس جگہ مذہبی قےادت نے حکومتی امور پر قدغنےں لگا رکھی ہوں وہاں کی حکومت تھےو کرےسی کہلاتی ہے ۔امور حکمرانی مےں ڈےمو کرےسی ، مردم سالای ، جمہورےت اور عوامی حکومت کی متفقہ ترےن تعرےف ےوں ہے ”عوام کی حکومت ،عوام کےلئے ، عوام کے ذرےعے“۔اس متفقہ ترےن تعرےف مےں تےسرا لفظ ”عوام کے ذرےعے “ بے حد اہم ہے ۔عوام اپنے اوپر حکومت کےلئے کےا طرےق کار اختےار کرتے ہےں ۔جب تک اس طرےق کار مےں عوام کی حکومت کو اور عوام کی مرضی اور رائے کو عمل دخل حاصل ہوتا ہے تب تک متفقہ حکومت جمہوری ہوتی ہے اور جونہی وہ عوام کی خواہشوں مفادات ،امنگوں اور امےدوں کے برعکس روش پر چل کر عوامی نمائندگی کے اصولوں سے چشم پوشی کرنا شروع کرتی ہے وہ غےر جمہوری بن جاتی ہے ۔کسی بھی حکومت کی تشکےل سے پہلے رائے عامہ سے رجوع کےا جاتا ہے جسے علم حاکمےت ےا علوم سےاسی مےں انتخابات کہا جاتا ہے ۔چنانچہ کوئی حکومت کتنے ہی عوام دوست ،وطن پرست ،انصاف پسند اور اصولوں کے مطابق چل رہی ہو اگر عوامی رائے ےا انتخابات کے راستے اےوان اقتدار مےں نہےں آئی تو اسے جمہوری حکومت نہےں کہا جا سکتا ۔ انتخابات سے قبل ہر سےاسی جماعت ےا گروہ اپنا پروگرام ےا منشور عوام کے سامنے رکھ کر ووٹ کا طالب ہوتا ہے اور اس منشور سے انحراف کا مطلب صرف اور صرف ےہ ہوتا ہے کہ حکومتی ٹولہ حق حاکمےت سے محروم ہو گےا ہے ۔معاملہ صرف کتابی انداز مےں جمہورےت کا رٹا رٹاےا سبق دہرا دےنے کا نہےں ہوتا بلکہ زمےنی حقائق سمجھنے کا بھی ہوتا ہے لےکن شومئی قسمت کہ پاکستان کو قائم ہوئے 75برس ہو چکے اور ہم ابھی تک جمہورےت کی تلاش مےں سرگرداں ہےں ۔ افسوسناک حقےقت ےہی ہے کہ جمہورےت دور دور تک دکھائی نہےں دےتی ۔اصل مےں ہم نے جمہورےت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہےں کی ہم نے جمہورےت کے لبادے مےں اس کو مختلف روپ دئےے مثلاً محدود جمہورےت ، بنےادی جمہورےت اور باوردی جمہورےت ۔ ہمارے سےاسی رہنما اور سےاسی جماعتےں اس نام نہاد جمہورےت کی نہ صرف علمبردار رہی ہےں بلکہ اس کا حصہ بھی رہی ہےں ۔ےہ حقےقت تسلےم کرنا پڑے گی کہ دنےا کے 190ممالک مےں پاکستان واحد ملک ہے جس پر حکومت کرنا بہت آسان ہے اس کی وجہ ےہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کم اور حکمرانوں کا قانون زےادہ چلتا ہے ۔ہر حکمران نے ےہاں جمہورےت لانے کا وعدہ کےا پھر اپنی پسند کی جمہورےت لانے مےں ہی محنت کی اور ان کے رخصت ہوتے ہی ان کی لائی ہوئی جمہورےت زمےن بوس ہو گئی ۔کسی بھی حکمران نے ماضی کی غلطےوں سے سبق سےکھنے کی کوشش نہےں کی ۔سےاسی ماہرےن کے مطابق ہمارے ہاں جمہوری تنزلی کی اےک وجہ نو آبادےاتی حکمرانی کا تسلسل ہے انگرےزوں نے سجادہ نشےنوں ،جاگےر داروں اور قبائلی سرداروں کو رےاستی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنا کر انہےں حکمرانی مےں شامل کےا ۔ابھی تک حکمرانی کا ےہی تصور ہمارے ہاں کار فرما ہے جبکہ اس کے برعکس نہرو نے ہندوستان بنتے ہی جاگےر داری نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کر دےا ےہی وجہ ہے جمہورےت کے اس انڈےکس مےں بھارت کا 46واں اور ہمارا 104واں نمبر ہے ۔ہماری سےاست ہمےشہ شخصےات کے گرد ہی گھومتی رہی آج بھی پےپلز پارٹی کی سےاست ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظےر کے گرد گھوم رہی ہے کوئی تصور بھی نہےں کر سکتا کہ جماعتی اقتدار خاندان سے باہر بھی جا سکتا ہے ۔نواز لےگ کی سےاست سے اگر شرےف خاندان کو الگ کر دےا جائے تو باقی کچھ نہےں بچتا ۔اگر تحرےک انصاف کی سےاست کا جائزہ لےا جائے تو عمران خان نے ہر اس شخص کو نکال باہر کےا جس نے ان سے اختلاف کےا ۔عوام بھوک و افلاس کی چکی مےں بری طرح پس رہے ہےں لےکن ان کی رٹ دوسروں کو ڈاکو ثابت کرنے اور ےہی ورد دہرانے مےں چل رہی ہے کہ شرےفوں کو نہےں چھوڑوں گا۔ اپوزےشن حکومت کی رہنما ہوتی ہے لےکن گزشتہ چند برسوں سے اعلیٰ اےوانوں مےں عدم برداشت ،تشدد اور الزام تراشی کو ہی فروغ مل رہا ہے جس سے جمہوری توازن بگڑ چکا ہے جمہوری مثبت روےوں کا فروغ اپوزےشن کو عزت دےنے مےں ہے لےکن فلاں چور کی مسلسل رٹ لگانے سے تو ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہےں ہو سکتا ۔قےام پاکستان سے لےکر آج تک ملک مےں جمہورےت کے نام پر ہر سےاسی پارٹی نے اپنا منشور بناےا ،اقتدار کے مزے لئے لےکن جمہورےت کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کےا ،صرف اور صرف حکومتی اختےارات کو اپنے اپنے مفادات کےلئے استعمال کےا ۔ پاکستان کی کسی بھی سےاسی پارٹی نے اپنے دور اقتدار مےں جمہورےت کی مضبوطی کےلئے اےسی قانون سازی نہےں کی جس سے عوام مےں ےہ سوچ ابھرے کہ ہم بھی کبھی ووٹ کے ذرےعے اپنے نمائندے منتخب کر سکےں گے ۔پاکستان کی تارےخ شاہد ہے کہ ےہاں کبھی آل پارٹی کانفرنس جمہورےت کی مضبوطی کےلئے منعقد نہ ہو سکی ان پارٹےوں کی اپنی اپنی ڈےڑھ اےنٹ کی الگ الگ مساجد ہےں ،کسی کو ملک و ملت کےلئے بےٹھنا پسند نہ ہے ۔تمام حکمران ڈنگ ٹپاﺅ حکومت کرتے رہے اور جنہےں دو تہائی اکثرےت بھی ملی وہ بھی بادشاہ بن بےٹھے اور جمہورےت کی بحالی کے بجائے امےرالمومنےن بننے کی صدائےں بلند کی جاتی رہےں ۔ڈکٹےٹروں کے ا دوار مےں تو ہمارے ہاں بلدےاتی نظام کو رواج دےا گےا لےکن عوامی امنگوں کے ترجمانوں اور اپنے آپ کو جہوری کہنے والوں نے چلتے ہوئے بلدےاتی نظام کا خاتمہ کرنا مقصد ٹھہراےا اور جمہورےت کا گلہ دبانے مےں اپنی عافےت جانی۔پی ٹی آئی کی جمہورےت کی دعوے دار اس حکومت نے بھی پنجاب مےں بلدےاتی اداروں کو توڑنے مےں اپنا مفاد سمجھا ۔جمہوری حکومتوں مےں ہی ہارس ٹرےڈنگ کے ذرےعے اےک دوسرے کو نےچا دکھانے کےلئے چھانگا مانگا ،مری اور سوات مےں بھاری رشوت دےتے ہوئے ممبران کو محبوس کر کے ووٹنگ والے دن لاےا جاتا رہا ۔آج ملک مےں وہ جماعتےں اور سےاسی قائدےن انقلاب اور جمہورےت کا راگ الاپ رہی ہےں جنہوں نے جمہورےت کی جڑےں کاٹنے مےں اہم کردار ادا کےا ۔آج بھی ان کا مقصد صرف پاور کا حصول ہے ۔ےہاں تو سےاسی جماعتےں ہی آرمی کو مداخلت کی دعوت اور ترغےب دےتی رہےں ۔ہم نے مجموعی طور پر اگر کسی مےدان مےں ترقی کی ہے تو وہ آمرےت کے دوام ،طوےل المعےاد مارشل لاءاور اس کے نت نئے تجربات مےں ۔ےہاں اسی کا قانون چلتا ہے جس کے ہاتھ مےں طاقت ہے ۔ہم وہےں کھڑے ہےں جہاں پہلے دن تھے ۔ابھی تک جمہورےت کا سبق ناتمام تجربات سے گزر رہا ہے ۔فےصلے وقت پر نہ کئے جائےں اور اپنے ہی قوت بازو پر بھروسہ کر لےا جائے تو پھر غےر متوقع نتائج ہی سامنے آتے ہےں ۔محترم و معزز قارئےن جمہورےت ہی سب سے اچھی اور بہتر طرز حکومت ہے لےکن اےسی حکومت مےں بقا نہےں جو لےڈران کی مفاد پرستانہ رواےت پر ہی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہو ۔