کالم

علامہ اقبال ؒ کا دورہ افغانستان

riaz chu

قلم کاروان،اسلام آبادکی ادبی نشست میں میرافسرامان نے "علامہ محمداقبالؒ اورافغانستان”کے موضوع پراپنے مقالے میں بتایاکہ علامہؒ نے کہاتھاکہ افغانستان ایشیاءکادل ہے۔ علامہؒ نے افغانستان میں مسلمانوں کی یونیورسٹی کھولنے کی تجویزبھی دی تھی۔آپ نے فرمایا:”ایک تعلیم یافتہ افغانستان ہندوستان کا بہترین دوست ثابت ہو سکتا ہے۔ کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اورہندوستان کی مغربی سرحد پر اسلامیہ کالج کو یوینورسٹی میں تبدیل کرنا، تیز فہم افغان قبائل (جو ہماری اور افغان سرحدوں کے درمیان آباد ہیں) کی بہبود کے لیے انتہائی سود مند ثابت ہوگا“۔علامہ اقبالؒ نہ صرف تاریخ جہاں اور تاریخ اسلامی کا گہرا شعور رکھتے تھے بلکہ تاریخ ہند اسلامی کے فہم و ادراک میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی اس حیثیت سے متاثر ہوکر ہی افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے آپ کو افغانستان کا نظام تعلیم وضع کرنے اور اس ضمن میں راہنمائی فراہم کرنے کی غرض سے دورہ افغانستان کی دعوت دی تھی جس پر آپ نے 1933 میں علامہ سید سلیمان ندویؒ اور سر راس مسعود کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا۔اس دورے میں آپ نے کابل میں سلطنت مغلیہ کے بانی ظہیرالدین بابر،غزنی میں محمود غزنوی اور قندھار میں احمد شاہ ابدالی کے مزار پر حاضری دینے کے موقع پر اپنی شہرہ آفاق فارسی مثنوی بعنوان مسافر تخلیق کی تھی جس کو بعد میں ”پس چہ باید کرداے اقوام شرق“کے ساتھ ملا کر 1934میں ایک ساتھ شائع کردیا گیا تھا۔لہٰذا اگر آج بھی بنظر غائر دیکھاجائے تو پاکستان ا ور افغانستان جوتاریخی‘ جغرافیائی‘ اقتصادی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ غرض ہر لحاظ سے یک جان دو قالب ہیں کے درمیان گہرے دوستانہ وبرادرانہ تعلقات استوار ہونے کے وسیع امکانات موجو دہیں۔علامہ اقبالؒؒ کے کلام میں عالم اسلام میں سب سے زیادہ تذکرہ افغانستان کا ہے۔شاہی مہمان کی حیثیت سے وہ افغان گئے۔ان کی وہاں بڑی قدرو منزلت کی گئی۔ اس عزت افزائی کے لئے اقبالؒؒ کے دل میں ان کے لئے نرم گوشہ کا ہونا ایک فطری امرہے۔ ہندوستان میں افغانی سفیر صلاح الدین سلجوقی اپنی گہری عقیدت کے باعث علامہ اقبالؒؒ کومرشد کہاکرتے تھے۔ شاہ امان اللہ کاسب سے بڑاکارنامہ یہ تھا کہ 18اگست 1899ءکو راولپنڈی معاہدے کے تحت انگریزوں نے افغانستان کی مکمل خودمختاری کوتسلیم کرلیا۔ اس طرح انہوں نے افغانستان کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ شاہ امان اللہ بیدارمغزحکمران تھے۔ ملک کی ترقی کے لئے بہت سی اصلاحات کیں۔ کابل یونیورسٹی کاقیام ، جدیدتعلیم کافروغ ، زراعت اورصنعت وحرفت پر توجہ اورمختلف کارخانوں کاقیام ا±ن کامرہون منت ہے۔علامہ اقبالؒ افغانیوں کوجس تہذیب وتمدن کاسبق دیناچاہتے ہیں وہ یورپ کی جگمگاتی اورنظرکوخیرہ کرنے والی تہذیب نہیں تھی۔ایران ،عراق،ترکی ،شام ،مصر وہندوستان کے مسلمانوں کی بے راہ روی ، کوتاہ بینی اورتقلید کو وہ اپنی تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان ممالک کے حکمرانوں نے مغربی علوم وفنون کی ترویج کاتوکوئی انتظام نہیں کیا۔البتہ یورپین لباس اورتہذیب وتمدن سے اپنی قوم کوآشناکردیا اوراپنی حماقت سے سمجھ بیٹھے کہ اگرمسلمان عمامہ کے بجائے ہیٹ اورشلوار کے بجائے پتلون یاعورتیں بے حجابی اختیارکرلیں گی توترقی کے دروازے کھل جائیں گے حالانکہ ترقی ونشونماکے لئے صرف علم کاچراغ روشن کرنا درکارہے نہ کہ ساقِ عریاں لباسعلامہ اقبالؒؒؒ نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔ علامہ اقبالؒؒؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی، جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔علامہ محمد اقبالؒؒؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے جاگنے کا پیغام دعا اور فلسفہ خودی کو اجاگر کیا مگر مغربی مفکرین کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا۔اقبالؒؒؒ نے اس دور میں شاعری کو اظہار کا ذریعہ بنایا، جب برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی میں تھے، جب کہ امت مسلمہ کی آنکھیں مغرب کی چمک دمک سے چندھیا چکی تھیں۔ اقبالؒؒؒ نے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے اپنے اشعار میں مغربی تہذیب پر تنقید کی، تو وہاں کے نقاد نے شاعرمشرق کا پیغام سمجھے بغیر ہی ان کے خلاف محاذ کھول لیا۔تاریخ پرنظررکھنے والے اقبالؒؒؒ کی نوبل پرائز سے محرومی کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اقبالؒؒؒ کے پیغام خودی کو مغرب نے جہاد پر آمادہ کرنے سے تعبیر کیا اور یہی اختلاف اقبالؒؒؒ کی بجائے، ان کے ہم عصر رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کا جواز ٹھہرا۔اقبالؒؒؒ پر تنقید کرنے والے مغربی دانشور یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں جا بجا یورپ کے علم وہنر کو سراہا اور مسلمانوں کو ترقی کے اس راستے پر چلنے کی تلقین کی۔ اقبالؒؒؒ ایک درد ،دل سوز، دوراندیش اور فکر قومیت رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کے لیے پریشانی میں مبتلا ہو جاتے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لیے تھے۔ شاعر مشرق عقاب کی ساری خوبیاں مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی شاعری کا مسلم نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لیے ا±ٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ ایک الگ وطن پاکستان حاصل کر کے ہی دم لیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے